امریکہ بھارت پر دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ ایران سے تیل کی درآمد روک دے اور روس سے کلیدی عسکری نوعیت کی خریداری کم کرے، جن دو ملکوں کو بھارت علاقائی اتحادی گردانتا ہے۔ یہ معاملے بھارت امریکہ بات چیت میں سر فہرست رہ سکتے ہیں، ایسے میں جب دونوں ملک اعلیٰ سطحی مکالمہ کرنے والے ہیں، جس کا مقصد سیاسی اور حکمت عملی کے حامل تعلقات استوار کرنا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع جم میٹس جمعرات کے دِن نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصبوں وزیر خارجہ سوشما سوراج اور وزیر دفاع نرملہ سیتارامن سے ملاقات کریں گے۔
اس افتتاحی اجلاس کو ’ٹو پلس ٹو‘ ڈائلاگ کا نام دیا جا رہا ہے۔ دو بار مؤخر ہونے والے مذاکرات ایسے میں ہوں گے جب دونوں ملک چین سے متعلق توازن قائم کرنے کی کوشش کے حوالے سے ساجھے داری کو وسعت دے رہے ہیں۔
جمعرات کی ملاقات کے دوران ایک کلیدی سمجھوتا طے کیے جانے کو اولیت دی جائے گی، جس سے بھارت کو دفاعی نظاموں کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوجائے گی اور بھارتی و امریکی فوجوں کو اطلاعات کی شراکت داری یقینی ہوجائے گی۔
امریکہ کی جانب سے 2016میں بھارت کو کلیدی دفاعی ساتھی قرار دینے کے اقدام سے عسکری تعاون کو تقویت ملنے کا دروازہ کھل گیا تھا۔
لیکن، اس حوالے سے چند پیچیدہ نکتے حائل ہیں۔ بھارت کی یہ کوشش ہوگی کہ وہ روس کے ساتھ اہم فوجی لین دین پر عائد امریکی تعزیرات کے سلسلے میں استثنیٰ حاصل کرے۔ اس وقت بھارت روس سے چھ ارب ڈالر مالیت کے جدید ترین فضائی دفاع کے نظاموں کی خریداری کے لیے مذاکرات کے حتمی مراحل میں ہے، جن کی مدد سے اُسے بلند سطح داغے جانے والے میزائلوں سے تحفظ فراہم ہوگا۔
بھارتی اہلکاروں نے عندیہ دیا ہے کہ بھارت اُس ملک سے یہ سمجھوتا طے کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے جو اُن ملکوں میں شامل ہے جن سے وہ سب سے بڑی دفاعی رسد حاصل کرتا رہا ہے۔
تاہم، بات چیت سے قبل، ایشیا پیسیفک سکیورٹی سے متعلق پینٹاگان کے معاون وزیر برائے دفاع، رینڈل شریور نے کہا ہے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ بھارت کو استثنیٰ مل سکتا ہے اور یہ کہ امریکہ کو ’’انتہائی اہم تشویش‘‘ لاحق رہے گی اگر بھارت روس سے اہم نئے پلیٹ فارمز اور نظام خریدتا ہے۔
باوجود اس کے، بھارتی دارالحکومت کے تجزیہ کار پُرامید ہیں کہ دونوں ملک اپنے اختلافات کو ختم کرنے کے طریقے ڈھونڈ لیں گے۔
ہارش پنت، نئی دہلی کی ’آبزرور رسرچ فاؤنڈیشن‘ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے بقول، ’’بھارت امریکہ تعلقات میں یہ سمجھوتے کو ختم کرانے سے، میرے خیال میں کوئی مقصد حاصل نہیں ہوگا؛ اور میں سمجھتا ہوں کہ پختہ ذہن والے لوگ اس بات کا ادراک کر سکتے ہیں۔ ایسا نہیں ہوگا کہ چونکہ امریکی یہ چاہتے ہیں اس لیے بھارت روس کے ساتھ اپنے تعلقات سے پیچھے ہٹ جائے‘‘۔
ایران سے تیل کی خریداری کے معاملے پر بھارت کوئی سرکاری رد عمل نہیں دینا چاہتا، جو بھارت کو تیل فراہم کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔
امریکہ چاہتا ہے کہ نومبر تک تمام ممالک ایران کے ساتھ تیل کی خریداری بند کر دیں۔ لیکن، ہو سکتا ہے کہ بھارت تیل کی ترسیل ترک بھی کرلے، پھر بھی بھارت پر دباؤ رہے گا کہ وہ تیل کی درآمد صفر تک لے آئے؛ جس سے طویل عرصے میں ایران کے ساتھ بھارت کے تعلقات متاثر ہوں گے؛ جہاں بھارت حکمت عملی کی حامل بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے، جس سے آبی راستوں تک رسائی نہ ہونے والے ملک افغانستان کو سہولت ہوگی۔
سکیورٹی تجزیہ کار، بھارت کرناڈ نئی دہلی کے ’سینٹر فور پالیسی رسرچ‘ نے کہا ہے کہ ایران اور روس کے ساتھ کاروبار کرنے والے ملکوں کے خلاف امریکی معاشی تعزیرات کا خطرہ ایسا معاملہ ہے جس سے بھارت کو پریشانی لاحق ہوگی۔
اُنھوں نے سوال کیا کہ ’’یہ ایک اصل مسئلہ ہے۔ یہ تعلقات کہاں تک جا سکتے ہیں اگر بھارت پر تعزیرات کی تلوار لٹکتی رہے گی؟’’۔