رسائی کے لنکس

تجارتی اداروں کی شکایات؛ بھارتی حکومت چینی تیکنیکی ماہرین کے لیے ویزا قوانین میں نرمی پر تیار


  • بھارت کی حکومت چینی ٹیکنیشنز کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کرنے جا رہی ہے تاکہ انہیں جلد از جلد ویزا مل سکے۔
  • حکومت تجارتی اداروں کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پابندیوں کو نرم کرنے پر غور کر رہی ہے۔
  • بھار ت نے رواں سال میں چینی باشندوں کو ب تک 2000 ویزے جاری کیے ہیں۔
  • کرونا کی وبا سے قبل 2019 میں دو لاکھ چینی شہریوں کو ویزے کا اجرا ہوا تھا۔

نئی دہلی—بھارت اور چین کے درمیان ایک طرف سرحدی کشیدگی جاری ہے اور تو دوسری طرف دونوں ممالک کی باہمی تجارت فروغ پا رہی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی حکومت چینی ٹیکنیشنز کے لیے ویزا قوانین میں نرمی کرنے جا رہی ہے تاکہ انہیں جلد از جلد ویزا مل سکے۔

امریکی میڈیا ادارے ’بلوم برگ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت تجارتی اداروں کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے پابندیوں کو نرم کرنے پر غور کر رہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق بھارت نے رواں سال چین کے لگ بھگ دو ہزار باشندوں کو ویزے جاری کیے ہیں۔ جب کہ 2019 میں کرونا وبا سے قبل دو لاکھ ویزے سالانہ جاری ہوتے تھے۔

تجارتی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عائد پابندیوں کی وجہ سے چینی ٹیکنیشنز بھارت نہیں آ رہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو بھارت کے ایک مینوفیکچرنگ مرکز بننے میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔

رپورٹ کے مطابق پہلے ویزا کے حصول میں چار سے پانچ ماہ لگ جاتے تھے۔ لیکن اب 30 یوم کے اندر ویزا دے دیا جائے گا۔

تاہم بھارتی حکومت، وزارتِ داخلہ یا صنعت و تجارت کے فروغ کی وزارت نے اس سلسلے میں تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔

رپورٹس میں کہاگیا ہے کہ وزارتِ صنعت و تجارت، وزارتِ داخلہ و خارجہ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ چینی ٹیکنیشنز کی ضرورت اس لیے ہے کہ بھارت کی فیکٹریوں میں چینی مشینوں کے نصب کرنے کا کام وہی کر سکتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق وزیرِ اعظم نریندر مودی بھارت کو چین کے متبادل مینوفیکچرنگ مرکز میں بدلنا چاہتے ہیں جس کے لیے ایپل جیسی الیکٹرانک کمپنیوں نے حالیہ برسوں میں بھارت میں پیداواری مراکز قائم کیے ہیں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ویزا پابندیوں کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ کاری پر اثر پڑا ہے اور بھارتی کمپنیوں کی بھروسہ مند سپلائی کمپنیوں کی امیج پر بھی حرف آیا ہے۔

اقتصادی امور کے سینئر تجزیہ کار جاوید عالم خان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت مینوفیکچرنگ کا مرکز بننا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ساز و سامان، افرادی قوت اور ٹیکنالوجی چاہیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر بھارت مذکورہ فیصلہ کرتا ہے اور چینی ٹیکنیشنز کے ویزوں میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔

ان کے بقول اس سے بھارت کا مینوفیکچرنگ شعبہ کافی فروغ پا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ باہمی تجارت میں بھی مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان تجارت جتنی زیادہ بڑھے گی بھارت کا تجارتی خسارہ بھی اتنا ہی زیادہ بڑھے گا۔ اس وقت چین کے ساتھ بھارت کا تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کے ساتھ برآمدات کم اور درآمدات زیادہ ہیں۔

دونوں ممالک کی باہمی تجارت غیر متوازن ہے اور اس کا جھکاؤ چین کی جانب زیادہ ہے۔

جاوید عالم کے بقول چین سے بھارت کو برآمدات کے مقابلے میں چین سے درآمدات کم از کم چھ سات فی صد زیادہ ہیں۔ لہٰذا اگر ویزے میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے باہمی تجارت تو بڑھے گی۔ لیکن چین کے ساتھ بھارت کا تجارتی خسارہ بھی بڑھے گا۔

ایک اقتصادی تھنک ٹینک ’گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشیئٹیو‘ کے مطابق 24-2023 کے مالی سال میں چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ دوطرفہ برآمدات و درآمدات کا حجم جنوبی ایشیائی ملکوں کی امریکہ کے ساتھ تجارت سے قدرے زیادہ تھا۔

اس دوران چین کے ساتھ بھارت کی باہمی تجارت 118.4 ارب ڈالر تھی۔ درآمدات 3.24 فی صد بڑھ کر 101.7 ارب ڈالر تک اور برآمدات 8.7 فی صد اضافے کے ساتھ 16.67 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔

جاوید عالم کہتے ہیں کہ 2015 میں چین کو بھارت کی برآمدات کا حجم 13 ارب ڈالر تھا۔ اس کے بعد ان میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا۔ اگر موجودہ وقت میں دیکھیں تو چین کے لیے بھارت کی برآمدات بمشکل 18 ارب ڈالر ہیں۔

جب کہ چین سے بھارت کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ 2015 میں درآمدات کا حجم 58 ارب ڈالر تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 119 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کے باوجود تجارتی پیش رفت ٹھیک ٹھاک رہی ہے۔ تجارتی شرح نمو آٹھ سے 10 فی صد تک رہی ہے۔ البتہ اگر پابندیاں عائد نہ کی گئی ہوتیں تو اس میں مزید اضافہ ہوتا۔

یادر ہے کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان 2020 میں خونی تصادم کے بعد، جس میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے، دونوں ملکوں میں زبردست کشیدگی پیدا ہو گئی جو اب کسی حد تک کم ہوئی ہے۔ لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔

جب کہ فریقین کی جانب سے کشیدگی کو دور کرنے اور سرحدی تنازعات کے حل کے لیے اب تک کمانڈر سطح پر 20 ادوار سے زائد مذاکرات ہو چکے ہیں۔ سفارتی سطحوں پر بھی مذاکرات منعقد ہوئے ہیں۔

اس واقعے کے بعد مودی حکومت نے چین پر مختلف قسم کی پابندیاں عائد کر دی تھیں جن کے تحت سیکڑوں چینی ایپس پر پابندی اور چینی سرمایہ کاری میں تخفیف کا فیصلہ شامل تھا۔

بھارتی حکومت نے رواں سال فروری میں ٹینڈرز میں حصہ لینے پر 17 چینی کمپنیوں پر پابندی لگا دی تھی اور نجی کمپنیوں سے کہا تھا کہ وہ چینی مصنوعات کا استعمال نہ کریں اور سرکاری کمپنیوں کے ساتھ تجارت کریں۔

مبصرین کے مطابق حکومت نے ایسا فیصلہ اس لیے کیا کہ چینی مصنوعات نام تبدیل کرکے بھارتی بازاروں میں آنے لگیں۔ اس سے بھارتی کمپنیوں کو نقصان اور چینی کمپنیوں کا فائدہ ہونے لگا۔

تاہم دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی کے باوجود باہمی تجارت آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن بھارت چین سے درآمد اور چینی کمپنیوں پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے بھارتی کمپنیوں کی جانب سے چینی درآمدات میں بتدریج تخفیف اور مقامی مصنوعات و آلات کی جانب توجہ مبذول کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

انہوں نے مئی میں صنعت و تجارت کے ادارے ’کنفیڈریشن آف انڈین انڈسری‘ (سی آئی آئی) کے سالانہ اجلاس میں بولتے ہوئے کہا کہ بھارت چین تجارتی فروغ کے باوجود اس کے ساتھ تجارتی تعلقات میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر سرحد پر امن و سلامتی کی صورتِ حال خراب ہو تو کیا آپ کسی ایسے کے ساتھ تجارت کرنا پسند کریں گے جو آپ کی زمین میں گھس آیا ہو۔ اگر کوئی ملک تحریری معاہدوں سے پیچھے ہٹ گیا ہے اور ہماری سرحدوں پر کچھ کر رہا ہے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ تجارت معمول کے مطابق جاری رہے گی۔

انہوں نے بھارت اور چین کے درمیان دیرینہ تجارتی عدم توازن کی نشاندہی کی اور دبے لفظوں میں اس کا شکوہ کیا کہ بھارتی تجارتی کمپنیاں دیگر امور پر لاگت کو ترجیح دیتی ہیں۔ انہوں نے اسے ایک مسئلہ بتایا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG