رسائی کے لنکس

یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب؛ وزیرِ اعظم مودی کو بنگلہ دیش کی صورتِ حال پر تشویش


  • بھارت بنگلہ دیش کی معاشی ترقی کے لیے تعاون جاری رکھے گا: وزیرِ اعظم نریندر مودی
  • امید ہے بنگلہ دیش کی صورتِ حال جلد معمول پر آ جائے گی؛ مودی کا یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب
  • ایک ارب 40 کروڑ شہریوں کو بنگلہ دیش میں مقیم ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کی فکر ہے: بھارتی وزیرِ اعظم
  • بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم و زیادتی نہ ہو، آر ایس ایس
  • خواتین کے خلاف جرائم پر عوام میں غصہ ہے، ریاستوں کو خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے، وزیرِ اعظم مودی

نئی دہلی _ بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو ملک کے 78ویں یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں حکومت کی تبدیلی اور اقلیتوں پر مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے اپنی حکومت کی تیسری مدت میں پہلی بار اور مسلسل 11 ویں مرتبہ یومِ آزادی پر قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے جہاں بیش تر ملکی مسائل پر گفتگو کی وہیں بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کے سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا اور توقع ظاہر کی کہ وہاں جلد ہی حالات معمول پر لوٹ آئیں گے۔

نئی دہلی کے لال قلعے میں یومِ آزادی کی تقریب کے دوران وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر میں کئی موضوعات پر بات کی اور ساتھ ہی انہوں نے بنگلہ دیش کی صورتِ حال کا خصوصی ذکر کیا۔

وزیرِ اعظم مودی نے کہا کہ ایک پڑوسی ملک ہونے کے ناطے بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا ہے اس پر یہاں تشویش میں مبتلا ہونا فطری بات ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ بنگلہ دیش میں حالات جلد ہی معمول پر لوٹ آئیں گے۔

ان کے بقول بھارت کے 140 کروڑ افراد کو بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کی فکر ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوؤں سمیت تمام اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔

وزیرِ اعظم مودی نے بنگلہ دیش میں عبوری حکومت کے قیام پر ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں ڈاکٹر محمد یونس کو مبارک باد دیتے ہوئے ہندوؤں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اپیل کی تھی۔

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں شامل وزیر اور سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے خلاف طلبہ تحریک کی قیادت کرنے والے اسٹوڈنٹ لیڈر ناہد اسلام کہہ چکے ہیں کہ بھارت نے بنگلہ دیش کے عوام کے بجائے شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا تھا اس لیے اسے اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

عبوری کابینہ کا حصہ بننے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں ناہد نے کہا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ لیکن نئی دہلی کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے بصورت دیگر خطے میں مسائل پیدا ہوں گے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ کے حالیہ احتجاج کے بعد وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے پانچ اگست کو ملک چھوڑ کر بھارت میں پناہ لے لی تھی۔ وہ اس وقت نئی دہلی میں کہیں محفوظ مقام پر مقیم ہیں۔

بھارت کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی نظریاتی سرپرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے بھی بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ حملوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹرز میں پرچم کشائی کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو بغیر کسی وجہ کے نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان پر حملے کیے جا رہے ہیں۔

ان کے بقول بھارت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہاں کے ہندوؤں کے ساتھ ناانصافی اور ظلم و زیادتی نہ ہو۔

واضح رہے کہ بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے مندروں، مکانوں اور کاروباری اداروں پر حملوں کی اطلاعات ہیں۔ ان حملوں کے تناظر میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس نے گزشتہ دنوں ایک مندر کا دورہ بھی کیا تھا۔

ڈاکٹر یونس کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے کسی بھی شہری میں عدم تحفظ کا احساس پیدا نہیں ہونا چاہیے خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔

بنگلہ دیش کے ہندوؤں کی سب سے بڑی تنظیم 'بنگلہ دیش نیشنل ہندو گرینڈ الائنس' نے منگل کو ایک بیان میں الزام عائد کیا تھا کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد اقلیتی برادری پر حملے ہو رہے ہیں اور انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول 48 اضلاع میں 278 مقامات پر ایسے واقعات ہوئے ہیں۔

'خواتین کے خلاف جرائم پر عوام میں غصہ ہے'

نئی دہلی کے لال قلعے سے وزیرِ اعظم مودی نے یومِ آزادی کی تقریب سے خطاب کے دوران کلکتہ کے ایک سرکاری اسپتال میں ایک جونیئر ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے واقعے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے تناظر میں کہا کہ خواتین کے خلاف جرائم پر عوام میں غصہ ہے، ریاستوں کو خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہیے۔

انہوں نے کہا "میں لال قلعے کی فصیل سے اپنا دکھ ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی جلد از جلد جانچ ہو اور ایسی حرکتیں کرنے والوں کو سخت سزا ملے۔

کلکتہ کے ایک سرکاری اسپتال آر جی کر میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں 31 سالہ خاتون ڈاکٹر کے ریپ اور قتل کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب ڈاکٹروں نے مختلف مقامات پر بیک وقت احتجاج بھی کیا۔

پولیس نے خاتون ڈاکٹر کے مبینہ قاتل کو گرفتار کر لیا ہے جب کہ تحقیقاتی ادارے سی بی آئی واقعے کی جانچ کر رہی ہے۔

'ملک کو سیکولر سول کوڈ کی ضرورت ہے'

وزیرِ اعظم مودی نے ملک میں یونیفارم سول کوڈ لانے پر بھی زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت جو سول کوڈ نافذ ہے وہ فرقہ وارانہ ہے اور مذہب کی بنیاد پر عوام کے ساتھ تفریق برتی جاتی ہے۔ ان کے بقول ملک کو سیکولر سول کوڈ کی ضرورت ہے۔

حالیہ عرصے کے دوران بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کا مطالبہ بار بار اٹھتا رہا ہے۔ ریاست اتراکھنڈ نے اپنے یہاں قانون بنا کر یونیفارم سول کوڈ نافذ کر دیا ہے۔

مسلم تنظیموں کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ ان کے مطابق سول کوڈ سے ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت ہوگی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم کے اس بیان پر بڑے پیمانے پر تنقید ہونے کا امکان ہے۔

اسی کے ساتھ وزیر اعظم نے ون نیشنل ون الیکشن پر بھی زور دیا۔ موجودہ حکومت بار بار اس بات پر زور دیتی رہی ہے کہ ملک میں ایک ساتھ ہی انتخابات ہونے چاہئیں۔ بار بار کے انتخابات سے ملکی وسائل پر بوجھ پڑتا ہے۔

اپوزیشن کی جانب سے اس تجویز کی شدید مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ اس کا الزام ہے کہ حکومت اسی بہانے ملک میں ایک جماعتی نظام نافذ کرنا چاہتی ہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے ایک بار پھر 2047 تک بھارت کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ انہوں نے اس سلسلے میں پورے ملک سے تجاویز طلب کی ہیں۔

وزیرِ اعظم کا یہ خطاب لال قلعے کی فصیل سے ان کا طویل ترین خطاب تھا جو 103 منٹ کا تھا۔ لال قلعے سے ان کی تقریروں کا اوسط وقت 82 منٹ رہا ہے۔ اس سے قبل 2016 میں ان کی تقریر سب سے لمبی تھی جو 96 منٹ کی تھی۔

نیشنل نیوز چینلز، سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز پر مودی کے خطاب کا تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں نیوز چینلز پر ان کی تقریر کو مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے اور ان کے اعلانات کی ستائش کی جا رہی ہے وہیں سوشل میڈیا پر ان کی تقریر پر تنقید ہو رہی ہے۔

سینئر تجزیہ کار نیلو ویاس کے یوٹیوب چینل ’پبلک انڈیا‘ پر ہونے والی بحث میں تجزیہ کاروں نے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی کے خطاب میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ انتخابی تقریروں میں جو بات کہتے رہے ہیں انہی کا اعادہ کیا ہے۔

سینئر تجزیہ کار کے پی ملک کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10 تقریروں میں جو ان کا اعتماد تھا وہ آج کہیں نظر نہیں آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ گھبرائے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پا س کہنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں تھا۔ ان کے بقول مودی نے پرانی باتیں دہرائیں۔

ایک دوسرے یو ٹیوب چینل ’دی نیوز لانچر‘ پر سینئر تجزیہ کار اشوک وانکھیڈے نے مودی کی تقریر پر تنقید کی۔ انہوں نے منی پور کا معاملہ اٹھایا اور وہاں خواتین پر مبینہ مظالم پر ان کی خاموشی پر تنقید کی۔

اشوک وانکھیڈ نے کہا کہ وزیرِ اعظم مودی ملک کو ترقی یافتہ ملک بنانے کی بات کرتے ہیں لیکن ملک میں اتنی بے روزگاری ہے کہ اگر 10 ملازمتوں کی ویکنسی نکلتی ہے تو اس کے لیے 10 ہزار نوجوان درخواست دیتے ہیں۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار اجیت انجم نے اپنے یوٹیوب چینل پر مودی کی تقریر کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ مودی نے کئی مسائل اٹھائے اور اپنی حکومت کی تعریف کی لیکن انہی مسائل پر ان کی حکومت پر شدید تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ انہوں نے بھی منی پور کے معاملے پر وزیرِ اعظم کی خاموشی پر تنقید کی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG