بھارت اور روس نے خلا، جوہری توانائی، ریلویز اور دیگر متعدد شعبوں میں جمعہ کے روز آٹھ معاہدوں پر دستخط کیے۔ یہ معاہدے نئی دہلی کا دورہ کرنے والے روسی صدر ولادی میر پوٹن اور وزیر اعظم نریندر مودی کے مابین وفود کی سطح کے مذاکرات کے دوران کیے گئے۔
اس کا اعلان وزیر اعظم مودی نے مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس میں کیا۔
ان معاہدوں میں 5.43 بلین ڈالر کا S-400 میزائیل سسٹم سے متعلق معاہدہ بھی شامل ہے۔ روس بھارت کو پانچ میزائیل سسٹم دے گا جس کی سپلائی 24مہینوں میں کی جائے گی۔
یوں تو بھارت اور روس کے درمیان بڑے دفاعی سودوں کی ایک تاریخ رہی ہے مگر یہ سودا ایسے وقت ہوا ہے جب امریکہ اور روس کے باہمی اختلافات بہت بڑھ گئے ہیں۔ واشنگٹن نے معاہدے سے قبل اس پر اعتراض کیا تھا، جبکہ دوسری طرف بھارت اور امریکہ کے باہمی رشتے بھی کافی گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکہ نے وارننگ دی تھی کہ اگر بھارت یہ معاہدہ کرتا ہے تو اس پر پابندی نافذ ہو سکتی ہے۔ امریکی قانون CAATSA کے تحت روس، ایران اور شمالی کوریا سے دفاعی سودا کرنے والے ملک پر پابندی عاید کی جا سکتی ہے۔ تاہم، بھارت کو امید ہے کہ امریکہ اسے اس قانون سے مستثنیٰ کر دے گا۔
ایک دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی نے ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’فوجی نقطہ نظر سے یہ سودا بھارت کے لیے بہت اہم ہے۔ لیکن، آگے چل کر اس کی بنیاد پر بھارت اور امریکہ کے رشتوں میں تلخی آسکتی ہے‘‘۔
انھوں نے کہا کہ ’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی طور پر بھارت کو اس معاہدے کے لیے اتنا سوچنا نہیں چاہیے تھا‘‘۔
بقول اُن کے ’’ہماری قیادت کو منظوری لینے کے لیے بار بار امریکہ جانا نہیں چاہیے تھا۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑی طاقت ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ ہماری اسٹریٹجک خودمختاری ہے تو اس کا فیصلہ ہمیں خود لینا ہوگا کہ ہمارے لیے کیا اچھا ہے کیا نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے پر حکومت گومگو کی شکار رہی ہے‘‘۔
مذاکرات کے بعد دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کیا اور باہمی تاریخی رشتوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔
ولادی میر پوٹن نے کہا کہ ہم نے تجارت و سرمایہ کاری پر بھی بات کی اور اس میں اضافے کے امکانات پر غور کیا۔ ہم نے 2025 تک باہمی تجارت کو 30 بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کہا کہ بھارت نے روس کے ساتھ اپنے رشتوں کو ہمیشہ ترجیح دی ہے اور بھارت کی ترقی میں ہمیشہ روس کا حصہ رہا ہے۔