رسائی کے لنکس

غربت ختم کرنے کے دعوؤں کے باوجود 'ہنگر انڈیکس' میں بھارت کی تنزلی کیوں ہوئی؟


دو یورپی ایجنسیوں نے جمعرات کو ’گلوبل ہنگر انڈیکس‘ رپورٹ یعنی بھوک کی عالمی درجہ بندی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق بھارت چار درجہ نیچے آ کر 125 ملکوں کی فہرست میں 111 ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ گزشتہ سال وہ 121 ملکوں کی فہرست میں 107 ویں نمبر پر تھا۔

آئرلینڈ اور جرمنی کی تنظیموں ’کنسرن ورلڈ وائڈ‘ (Concern Worldwide) اور ’ویلٹ ہنگرہلف‘ (Welt Hungerhilfe) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا بھارت سے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ صرف افغانستان، ہیٹی اور 12 سب سہارا ملکوں کی کارکردگی بھارت سے خراب ہے۔ یہ وہ ملک ہیں جن کی معیشت بھارت کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہے۔

اقتصادی امور سے متعلق نئی دہلی کے ایک ادارہ ’انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اینڈ ایڈووکیسی‘ سے وابستہ جاوید عالم خان کہتے ہیں کہ شرح نمو اور ترقی میں بہت فرق ہے۔

اُن کے بقول حکومت نے متعدد اسکیمیں چلا رکھی ہیں جن میں ایک ’رائٹ ٹو فوڈ ایکٹ‘ بھی ہے یعنی سب کے لیے کھانے کا حق۔ حکومت اس کے تحت مجموعی آبادی کے 75 فی صد کا احاطہ کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ اجناس کی تقسیم ’فوڈ ڈسٹری بیوشن سسٹم‘ (پی ڈی ایس) نامی اسکیم ہے۔ دیگر کئی اسکیمیں بھی ہیں لیکن عوامی سطح پر اس کے اثرات دکھائی نہیں دے رہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان اسکیموں سے بچوں اور خواتین کو فائدہ پہنچنا چاہیے جو کہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ حکومت اسکیمیں تو چلا رہی ہے لیکن ان کا جائزہ نہیں لے رہی کہ ان کا فائدہ نشان زد طبقے تک پہنچ رہا ہے یا نہیں۔

ان کے بقول حکومت کو پہلے غربت کی تعبیر اور تشریح پیش کرنی چاہیے کہ کتنے روپے یومیہ کمانے والا شخص غریب نہیں ہے۔ جب تک یہ نہ معلوم ہو کہ ملک میں کتنے غریب ہیں تب تک ان کے لیے اسکیمیں کیسے بنائی جا سکتی ہیں۔

جاوید عالم خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے مذکورہ رپورٹ مسترد کر دی ہے۔ لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ اسے اپنی رپورٹ لے کر آنا چاہیے، اپنے اعداد و شمار پیش کرنے چاہئیں اور یہ بتانا چاہیے کہ مذکورہ رپورٹ کیوں غلط ہے۔

ان کے مطابق حکومت جو پیسے مختلف اسکیموں کے ذریعے دے رہی ہے وہ یا تو پہنچ نہیں رہے ہیں یا وہ اتنے کم ہیں کہ ان کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

'پانچ برس کے دوران ساڑھے تیرہ کروڑ افراد غربت سے باہر آئے ہیں'

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو ریاست اترا کھنڈ کے پتھوراگڑھ میں تقریر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ساڑھے تیرہ کروڑ افراد غربت سے باہر آئے ہیں۔

جاوید عالم خان کہتے ہیں کہ ایک طرف وزیرِ اعظم یہ دعویٰ کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی حکومت کی جانب سے 80 کروڑ افراد کو ماہانہ پانچ کلو اناج مفت دیا جا رہا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ دعوے اور حقیقت میں تضاد ہے۔

بچوں سے متعلق عالمی ادارے ’یونیسیف‘ کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً رپورٹس جاری کی جاتی ہیں۔ اس نے گزشتہ سال جو رپورٹ جاری کی تھی اس کے مطابق بھارت میں پانچ سال سے کم عمر کے 43 ملین بچے عدم غذائیت کے شکار ہیں۔

'بھارت میں کروڑوں افراد فاقہ کشی پر مجبور ہیں'

یونیسیف کی میڈیا ٹیم سے وابستہ ڈاکٹر مظفر حسین غزالی گزشتہ سال کی رپورٹ کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ بھارت میں 22 کروڑ افراد کو فاقہ کشی کا سامنا ہے۔

مجموعی طور پر 16 فی صد آبادی عدم غذائیت کا شکار ہے۔ ان میں 53 فی صد حاملہ خواتین ہیں۔ ان میں خون کی کمی بھی ہے۔ اسی وجہ سے بچوں میں وزن اور قد کی کمی پائی جاتی ہے۔

بھارت دنیا کی تیزی سے ابھرتی ہوئی تیسری عالمی معیشت ہے اور یہاں کی حکومت ملک کو پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

گلوبل ہنگر انڈیکس کی تیاری میں چار عوامل کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔ یعنی غذائیت کی کمی (پوری آبادی، بچے اور بالغ دونوں)، چائلڈ اسٹنٹنگ (وہ بچے جن کا قد عمر کے لحاظ سے کم ہے)، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی اموات اور چائلڈ ویسٹنگ (وہ بچے جن کا وزن ان کے قد کے لحاظ سے کم ہے)۔

یہ تمام اشارے عالمی سطح پر منظورشدہ اقوامِ متحدہ کے پائیدار ترقی ہداف (سسٹینیبل ڈیولپمنٹ گول) کے اجزا ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت ان 40 ملکوں کے گروپ میں شامل ہے جہاں بھوک کی صورتِ حال کو سنگین قرار دیا گیا ہے۔

مجموعی طور پر بھارت کا اسکور 28.7 ہے۔ یہ جائزہ 100 پوائنٹ اسکیل پر لیا گیا ہے۔ اسکور جتنا زیادہ ہو گا مذکورہ ملک کی کارکردگی اتنی ہی ابتر ہو گی۔

رپورٹ کے مطابق بھارت میں بچوں کا وزن ان کی عمر کے حساب سے عالمی سطح پر سب سے کم ہے۔ یہ 18.7 فی صد ہے جو کہ غذائیت کی شدید قلت کا عکاس ہے۔ وزن کا کم ہونا غذائیت کی کمی کی بدترین صورت حال ہے۔

رپورٹ کا کہنا ہے کہ اگر کسی ملک میں بچوں کے وزن میں کمی کا فی صد 15 سے زائد ہے تو وہ بدترین زمرے میں ہے۔ اس لحاظ سے بھارت بدترین زمرے میں آتا ہے۔

عمر کے حساب سے قد میں کمی کے معاملے میں بھی بھارت کی کارکردگی ابتر ہے۔ 35 فی صد بچے عمر کے حساب سے کم قد کے پائے گئے۔ البتہ پانچ سال سے کم عمر بچوں میں اموات کے معاملے میں بھارت ’کم خطرے‘ کے زمرے میں ہے۔ یہاں صرف 3.1 فی صد بچوں کی پانچ سال سے پہلے موت ہوتی ہے۔

خواتین میں خون کی کمی بھی پائی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 15 سے 24 سال کی عمر والی خواتین میں خون کی کمی کو ایک بڑے مسئلے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ 50 فی صد سے زائد خواتین میں خون کی کمی پائی گئی ہے جو کہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ ہے۔

حکومت نے رپورٹ مسترد کر دی

حکومت نے پہلے کے مانند ایک بار پھر اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ اس نے جمعرات کو ایک بیان جاری کر کے کہا کہ رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں اختیار کردہ طریقۂ کار میں خامیاں ہیں۔

حکومت کے مطابق انڈیکس کی تیاری میں چار اشارات میں سے تین کا تعلق بچوں کی صحت سے ہے۔ وہ پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کرتے۔ جب کہ چوتھا اور انتہائی اہم اشارہ ’غذائیت کی کمی‘ کا تناسب بہت چھوٹے سے سیمپل سائز یعنی صرف تین ہزار افراد کی رائے پر مبنی ہے۔

اس نے ’اسٹنٹنگ‘ اور ’ویسٹنگ‘ یعنی عمر سے کم قد اور عمر سے کم وزن کے معاملے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ بھوک ان دونوں کا سبب ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ صفائی ستھرائی، جینیات اور کھانے پینے کی مقدار کے استعمال وغیرہ جیسے عوامل کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔

حکومت نے کم عمری کی اموات پر بھی سوال اٹھایا ہے۔ اس کے مطابق اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کم عمری کی اموات بھوک کا نتیجہ ہے۔

لیکن صحت کے عالمی ادارے ’ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن‘ (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں میں عمومی امراض جیسے کہ اسہال، نمونیا اور ملیریا سے موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں تقریباً 45 فی صد اموات میں غذائیت سے متعلق عوامل کا کردار ہوتا ہے۔

اقتصادی ماہرین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں غریبی ہے اور اس کے شکار سب سے زیادہ بچے ہیں۔ حکومت کی جانب سے امدادی پراجیکٹ اور دیگر پروگرام چلائے جا رہے ہیں لیکن زمینی سطح پر ان کے اثرات نظر نہیں آتے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG