اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ہائی کمشنر اجے بساریہ نے عید کے دن پاکستان کے صدر عارف علوی سے ملاقات کی اور انہیں عید کی مبارک باد پیش کی۔ دوسری جانب پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود غیر اعلانیہ دورے پر نئی دہلی پہنچ گئے۔
سفارتی حلقوں میں بھارتی ہائی کمشنر کی عید کے موقع پر پاکستان کے صدر مملکت سے ملاقات کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
نریندر مودی کے دوبارہ بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ دوسری اہم حکومتی سطح کی ملاقات ہے۔
بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات میں پاکستان کے صدر عارف علوی نے نریندر مودی کے دوبارہ منتخب ہونے پر مبارکباد کا پیغام دیا اور توقع ظاہر کی کہ ان کا منتخب ہونا خطے میں امن و استحکام، معاشی ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے مثبت ثابت ہو گا۔
اس سے قبل کرغستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بھارتی ہم منصب شسما سوراج سے غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی جس میں شاہ محمود کے بقول شسما سوراج ان کے لیے مٹھائی لائیں تاکہ وہ میٹھا بولیں۔
پلوامہ دہشت حملے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اتنے کشیدہ ہو گئے تھے کہ بھارتی جنگی طیاروں نے پاکستانی علاقے بالاکوٹ میں بم برسائے اور اس کے جواب میں پاکستانی فضائیہ نے بھارتی کنٹرول کے کشمیر میں حملہ کیا اور ایک بھارتی طیارہ مار گراتے ہوئے اس کے پائلٹ کو پکڑ لیا تھا۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ سہیل محمود غیر اعلانیہ دورے پر نئی دہلی پہنچے ہیں جہاں انہوں نے عید کی نماز دہلی کی تاریخی جامع مسجد میں ادا کی۔
بھارتی میڈیا نے پاکستانی ہائی کمیشن کے ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ سہیل محمود نجی دورے پر ہیں اور وہ دہلی میں مقیم اپنے اہل خانہ کو واپس لے جانے کے لیے آئے ہیں۔
سہیل محمود اپریل میں سیکرٹری خارجہ تعینات ہونے سے پہلے بھارت میں پاکستان کے ہائی کمشنر تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹرانسفر کے وقت ان کے بیٹے کے امتحانات ہو رہے تھے جس کے باعث ان کے اہل خانہ کو نئی دہلی میں رکنا پڑا۔
تاہم سفارتی ذرائع سہیل محمود کے اس دورے کو بیک دوڑ ڈپلومیسی کا ایک حصہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی سطح کی یہ ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جب دونوں ملکوں کے وزراء اعظم شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی تیاری کر رہے ہیں جو کرغستان کے دارلحکومت بشکک میں اس ماہ کے وسط میں ہو گی۔
توقع کی جا رہی ہے کہ عمران خان اور ان کے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے درمیان بشکک میں ایس سی او اجلاس کی سائڈ لائن پر ملاقات ہو گی۔
سفارتی ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت اور پاکستان کے کشیدہ حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ بھارتی ہائی کمشنر کی پاکستان کے صدر سے ملاقات اور پاکستان کے اعلی سفارت کار کا نئی دہلی جانا مثبت پیغامات ہیں۔
شمشاد احمد خان کے مطابق بیک ڈور ڈپلومیسی اور سائڈ لائن ملاقاتیں تعلقات کو معمول پر لانے میں مفید ثابت ہو سکتی ہیں، تاہم دو طرفہ تعلقات میں بہتری اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان سربراہ سطح پر مذاکرات ضروری ہیں۔
نریندر مودی کے سابقہ دور اقتدار میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ پلوامہ حملے اور فضائی کارروائیوں کے سبب دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔
بھارت میں پارلیمانی انتخابات کی حالیہ مہم کے دوران عمران خان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر نریندر مودی دوبارہ کامیاب ہوتے ہیں تو اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان بات چیت کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔ مودی کی کامیابی پر سب سے پہلے مبارک باد دینے والوں میں عمران خان شامل تھے۔ تاہم بھارتی حکومت نے وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں انہیں موعو نہیں کیا جب کہ دوسرے پڑوسی ملکوں کے سربراہان کو دعوت نامے بھیجے گئے تھے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نریندر مودی دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عالمی سطح پر اپنا تاثر بہتر بنانے کے لیے بھارت کی پاکستان پالیسی پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔