رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش میں ’انڈیا آؤٹ‘ مہم کیوں چلائی جا رہی ہے؟


بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے مخالفین بھارت سے درآمد کی جانے والی اشیا کے بائیکاٹ کی مہم چلا رہے ہیں۔ اُنہیں شبہ ہے کہ بھارت وزیرِ اعظم کے اقتدار کو مضبوط کرنے میں خفیہ طور پر متحرک ہے۔

بنگلہ دیش میں گزشتہ ماہ ہونے والے متنازع انتخابات میں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے مسلسل چوتھی بار کامیابی حاصل کی تھی۔

امریکہ اور برطانیہ نے بنگلہ دیش کے عام انتخابات کو غیر منصفانہ اور جانب دارانہ قرار دیا تھا۔ البتہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندری مودی نے شیخ حسینہ کی کامیابی پر انہیں مبارک باد دی تھی۔

شیخ حسینہ کے مخالفین کو شبہ ہے کہ بھارت نے الیکشن کے عمل پر امریکہ اور دیگر ممالک کی تنقید کو کم کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے۔ تاہم اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

بنگلہ دیش میں سوشل میڈیا پر بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ کے لیے انڈیا آؤٹ، بائیکاٹ انڈیا اور بائیکاٹ انڈین پروڈکٹس کے ہیش ٹیگ استعمال کیے جا رہے ہیں جو کئی ہفتوں سے فیس بک پر ٹرینڈ کر رہے ہیں۔

بھارتی مصنوعات کے بائیکاٹ مہم کو ’انڈیا آؤٹ‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس مہم سے بنگلہ دیش میں بھارت کے خلاف موجود ناراضگی واضح ہوتی ہے۔

بائیکاٹ مہم کے آغاز کے بعد بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ اور چٹاگانگ شہر میں متعدد اسٹورز کے ملازمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بھارت سے درآمد ہونے والے کھانے کے تیل، ٹین کے ڈبوں میں بند خوراک، صابن، کاسمیٹکس اور کپڑوں سمیت کئی اشیا کی فروخت میں کمی آئی ہے۔

دوسری جانب بعض بھارتی تاجروں اور مقامی کاروباری افراد نے وی او اے کی بنگلہ سروس کو بتایا کہ اس مہم سے ان کا کاروبار متاثر نہیں ہوا۔

فرانس میں مقیم بنگلہ دیش کی انسانی حقوق کی ایک کارکن پیناکی بھٹاچاریہ بھی اس مہم کا آغاز کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بنگلہ دیش میں 2014 کے انتخابات اور اس کے بعد ہونے والے الیکشن میں عوامی لیگ نے بھارت کی حمایت سے مضحکہ خیز انداز میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ان کے بقول اس بار بین الاقوامی برادری چاہتی تھی کہ بنگلہ دیش میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوں۔ لیکن سات جنوری کو ہونے والے الیکشن نہ تو آزادانہ تھے اور نہ ہی منصفانہ۔

بنگلہ دیش کے عام انتخابات: شیخ حسینہ کا دور کیسا رہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ بنگلہ دیش میں حکام نے حکمران جماعت کے لیے بھارت کی مخفی اور واضح حمایت سے مضحکۂ خیز انداز میں الیکشن کا انعقاد کرایا۔

بنگلہ دیش کی حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے مطالبہ کیا تھا کہ انتخابات سے قبل حکمران جماعت عوامی لیگ اقتدار سے الگ ہو اور ایک غیر جانب دار نگراں حکومت کے ذریعے الیکشن کرائے جائیں۔ تاہم ان کا مطالبہ نہیں مانا گیا جس پر بی این پی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔

بی این پی کے بائیکاٹ کے سبب عوامی لیگ کے سامنے میدان میں حزبِ اختلاف کی کوئی بھی بڑی جماعت موجود نہیں تھی۔

سات جنوری کو بنگلہ دیش میں قومی اسمبلی کی 300 نشستوں پر الیکشن ہوئے اور تمام نشستوں پر عوامی لیگ یا اس کے اتحادیوں نے کامیابی حاصل کی۔

بنگلہ دیش کے انتخابات پر امریکی محکمۂ خارجہ نے بھی کہا تھا کہ یہ انتخابات آزادانہ و منصفانہ نہیں تھے۔

انڈیا آؤٹ مہم کے پیچھے کون ہے؟

بی این پی کی رہنما رومین فرحانہ کہتی ہیں کہ ان کی جماعت اس بائیکاٹ مہم کی پشت پناہی نہیں کر رہی۔ البتہ بھارت اپنی پسند کی ایک جماعت کو اقتدار میں رکھنے کے لیے اپنے تمام ذرائع استعمال کر رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں رومین نے کہا کہ یہ نظر آ رہا ہے کہ لوگ بھآرت کے کردار پر ناراض ہیں اور انہوں نے بھارت کو نکالنے کی مہم شروع کی ہے۔

وائس امریکہ کی درخواست پر بنگلہ دیش کی وزارتِ داخلہ نے اس معاملے پر کسی بھی قسم کا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

بھارت کی حکمران جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ کے سینئر رہنما الوک وتاس کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کی داخلی سیاست میں نئی دہلی کے عمل دخل کا الزام حقیقت پر مبنی نہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شیخ حسینہ کی حکومت سیکولر ہے جس نے ملک میں امن اور ہم آہنگی قائم کی ہے اور بھارت شیخ حسینہ کی اخلاقی طور پر حمایت کرتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کو بدنام کرنے کی کوئی بھی مہم ناکام ہوگی کیوں کہ جب انسانی سیاست کی بات آتی ہے تو بھارت منصفانہ اقدامات کرتا ہے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر آصف نذرال کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کے اقتدار کا تسلسل بھارت کی سیکیورٹی، اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات کو پورا کرتے ہیں۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اس سے بھارت کو بنگلہ دیش کی حساس بندرگاہوں، ہائی ویز اور دیگر تنصیبات تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ بھارت کی کمپنیوں کو منافع بخش معاہدے کرنے کا موقع ملتا ہے جب کہ بھارت کے شہریوں کو بنگلہ دیش میں بلا روک ٹوک ملازمت کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عوامی لیگ نے بھارت سے سرحد پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات پر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی بھارت سے بنگلہ دیش آنے والے دریاؤں کے پانی کے اخراج کے معاملے کو اٹھایا ہے۔

کیا بنگلہ دیش کے انتخابات متنازع اور غیر منصفانہ ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:22 0:00

امریکہ کی ’الی نوئے اسٹیٹ یونیورسٹی‘ میں سیاسیاست کے پروفیسر علی ریاض نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ 'انڈیا آؤٹ مہم' کی پشت پناہی کرنے والے جانتے ہیں کہ بھارت کی عوامی لیگ کی حکومت کے لیے حمایت ختم ہونے سے امریکہ الیکشن سے قبل اور بعد میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ نے گزشتہ برس متنبہ کیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے ان افراد پر ویزا کی پابندیاں عائد کر سکتا ہے جو بنگلہ دیش میں جمہوری عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں گے۔

امریکہ نے جنوری میں ہونے والے انتخابات کے بعد بنگلہ دیش میں کسی بھی شخص پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔

آسٹریلیا میں مقیم معاشی ماہر جیوتی رحمٰن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ 'انڈیا آؤٹ مہم' سے سیاسی طور پر ایک سخت پیغام جائے گا۔ البتہ اس کے معیشت پر کیا اثرات ہوں گے یہ ابھی واضح نہیں ہے۔

ان کے بقول بھارت سے بنگلہ دیش برآمدات صرف 3.5 فی صد ہیں۔ بھارت سے سیاحتی اور ثقافتی بائیکاٹ مہم جس میں بالی وڈ فلموں کی درآمد شامل ہے، سیاسی طور پر مؤثر ہو سکتی ہے۔ اس سے مقامی سطح پر سیاحت، انٹرٹینمنٹ اور دیگر اشیا کو فروغ مل سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ مہم کامیاب ہو جاتی ہے تو سیاسی طور پر اس کی اہمیت ہوگی کیوں کہ اس سے بھارت میں پالیسی سازوں کو بنگلہ دیش میں پائی جانے والی بے چینی کے حوالے سے واضح پیغام جائے گا۔

XS
SM
MD
LG