بھارت کے دور افتادہ اور غربت کے شکار علاقوں میں صحت کی سہولتوں اور مستند ڈاکٹروں کی قلت ہے۔ وہاں اب بھی بہت سے لوگ اپنےعلاج معالجے کے لیے جھاڑ پھونک کرنے والوں کے پاس جاتے ہیں، جو بعض اوقات انسانی اعضاء کے کام کرنے کے انداز کے بارے میں مختلف نظریات پیش کرتے ہیں۔
شیامالی سنگھ مغربی بنگال کے مدنا پور ضلع میں ایک ہائی اسکول کے طالب علم ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے پاس کتے کے کاٹے کا علاج کرنے کی موروثی صلاحیت موجود ہے۔
وہ کہتے ہیں کتا کاٹنے کے نتیجے میں انسان کے جسم کے اندر کتے کے پلے پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پھر وہ ایک پاگل کتے کی طرح حرکتیں کرنے لگتا ہے۔
مقامی آبادی میں کتے کے کاٹنے سے جسم میں کتے کے پلے پیدا ہونے کے عقیدے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
نفسیاتی معالج کانتی گوش نے 2003ء میں ایک طبی جریدے میں عطائی معالجوں کے طبی نظریات پر ایک مضمون لکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان میں اس بارے میں دلچسپی اس وقت پیدا ہوئی جب نوسال کاایک لڑکا پالتو کتے سے کاٹے جانے کے 10 روزبعد ان کے کلینک میں آیا۔
ان کا کہناہے کہ لڑکے میں باولے پن کے کوئی آثار نہیں تھے لیکن اسے یقین تھا کہ اس کے پیٹ میں کتے کاپلا پیدا ہوچکاہے۔ اس کے والدین کا کہناتھا کہ بعض اوقات وہ کتے کی طرح بھونکنا اور اسی کی طرح چاروں ہاتھ پاؤں پر چلنا شروع کردیتا ہے۔
اسی طرح ان کے کلینک پر ایک کاشت کار گوپال سنگھ بھی آیا جسے سات سال قبل ایک کتے نے کاٹ لیاتھا۔
اس نے بتایا کہ وہ فوراً ایک روحانی معالج کے پاس گیا جس نے اسے بتایا کہ تمہارے معدے میں کتے کا پلا پیدا ہوسکتا ہے جس کے بعد تم کتے کی طرح پاگل ہوکر مر جاؤ گے۔
ڈاکٹر سنجے ساموئی بھی اپنے کلینک پر آنے والے دیہاتیوں کے اس سے ملتے جلتے عقائد پر پریشان ہوجاتے ہیں۔ان کا کہناہے کہ لوگ جاہل ہیں ۔ وہ اب بھی اس طرح کی توہمات پر یقین رکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں ہر کسی کو یہ بتاتا ہوں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں ہے ۔
ڈاکٹروں کا کہناہے کہ لوگوں کے ذہنوں سے ان توہمات کو نکالنے کے لیے کئی سال لگ سکتے ہیں۔