بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گذشتہ روز کے پرتشدد واقعات پر بھر پور احتجاج ہوا جس سے معمولاتِ بری طرح زندگی متاثر ہوئی ہے کاروباری مراکز بند رہے۔
اتوار کو ہونے والی یہ ہڑتال گذشتہ روز شورش زدہ ریاست کے پلوامہ ضلعے میں مظاہرین پر فوج کی فائرنگ میں سات شہریوں کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کے خلاف کی گئی ہے۔
گذشتہ روز پلوامہ میں سرکاری دستوں اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں تین مبینہ عسکریت پسند اور ایک بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا ہے کہ فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی جس کی زد میں وہ شہری بھی آگئے جو مظاہرین میں شامل تھے اور نہ سنگباری کرنے والوں میں۔
پلوامہ ضلعے میں ہفتے کو لگایا گیا کرفیو اتوار کو دوسرے دن بھی جاری رہا جبکہ مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے حساس علاقوں میں کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائید کیں۔
عہدیداروں نے کہنا کہ یہ اقدامات امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے کیے گئے ہیں اور وادئ کشمیر میں ریل سروسز بھی حفاظتی وجوہات کی بناء پر معطل کردی گئی ہیں جبکہ انٹرنیٹ سہولیات جزوی طور پر روک دی گئی ہیں۔
اتوار کو پولیس نےمقامی تنظیم عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر رشید اور ان کے کئی ساتھیوں اور حامیوں کو اُس وقت حراست میں لے لیا جب وہ شہری ہلاکتوں پر احتجاج کرنے کے لئے سرینگر میں اقوامِ متحدہ کے فوجی مبصرین گروپ برائے بھارت و پاکستان کے گرمائی صدر دفاتر کی طرف مارچ کرنے لگے۔
ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے ہلاکتوں پر دکھ کا اظہار کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تاہم سرکردہ آزادی پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے مطالبہ کیا ہے کہ تحقیقات اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک اعلیٰ غیر جانبدار ادارے یا تنظیم سے ہونی چاہیے۔ انہوں نے عالمی ادارے پر زور دیا وہ اُن کے بقول کشمیریوں کے قتلِ عام کو رکوانے کے لئے مسئلہ کشمیر کوفوری طور پر حل کرے۔
اس دوراں بھارتی فوج نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' کی اُس اپیل کو نظر انداز کریں جس میں اُن سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر کو سرینگر میں فوج کی پندرہویں کور کے صدر دفاتر تک مارچ کریں تاکہ حکومت سے کہا جائے کہ وہ "کشمیریوں کو روزانہ بنیاد پر مار ڈالنےکے بجائے انہیں ایک ہی وقت ہلاک کرے"۔