|
بھارت میں شدید گرمی کی لہر سے اب تک سینکڑوں لوگ ہلاک اور بیمار ہوچکے ہیں۔ کئی دہائیوں میں اب تک کی شدید ترین گرمی کی لہر کے دوران مختلف جگہوں پر درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی بڑھ گیا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بعض طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد و شمار میں ظاہر کی گئی ہلاکتوں کے نمبر، حقیقت سے کہیں کم ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری گرمی کی لہر کے دوران، جس میں اب مون سون کی وجہ سے وقفہ آیا ہے،امکان ہے کہ ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا ہے کہ کیوں کہ ڈیتھ سرٹیفیکیٹ پر گرمی موت کی وجہ کے طور پر نہیں لکھی جاتی، اس لیے یہ اموات سرکاری اعداد و شمار میں ظاہر نہیں ہوتیں۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اموات کو کم ظاہر کرنے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری طور پر گرمی کی شدید لہر سے نمٹنا ابھی حکومت کی اولین ترجیح نہیں ہے۔
بھارت میں 2008 سے 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال گرمی کی وجہ سے اوسطاً 1 ہزار 1 سو 16 افراد ہلاک ہوئے۔
بھارت میں پبلک ہیلتھ فاؤنڈیشن آف انڈیا کے بانی سری ناتھ ریڈی نے حکومت سے اس بارے میں مشاورت کی ہے کہ کس طرح ہلاکتوں کا ریکارڈ رکھتے ہوئے گرمی کو بطور وجہ دیکھا جائے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں نامکمل اندراج کی وجہ سے ملک میں گرمی کی وجہ سے ہونے والی اموات، بڑی حد تک ریکارڈ کا حصہ نہیں بنتیں۔
بقول ان کے، اکثر ڈاکٹر مرنے کی فوری وجہ ہی کا اندراج کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گرمی کی وجہ سے دو طرح سے اموات ہوتی ہیں۔ ایک تو جب کوئی گرمی کی وجہ سے براہ راست ہلاک ہوجائے، دوسرا گرمی کی وجہ سے صحت کے دوسرے مسائل شدید ہوجائیں۔
بھارت کےگاندھی نگر کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کے سابق سربراہ دلیپ ماوالناکار کا کہنا تھا کہ دوسری طرح کے افراد کے لیے گرمی کی شدید لہر خطرناک ہوتی ہے۔
انہوں نے بھی اس بات سے اتفاق کیا کہ گرمی کی لہر سے ہونے والی ہلاکتوں کا شمار حقیقت سے بہت کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیٹ سٹروک کے چالیس ہزار سے زائد واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں، لیکن اموات محض 110 ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ، ’’یہ ہلاکتیں ہیٹ سٹروک کے اعداد و شمار کا محض 0.3 فیصد ہیں، جب کہ عمومی طور پر ہیٹ سٹروک سے ہونے والی ہلاکتیں 20 سے 30 فیصد ہوتی ہیں۔‘‘
دلیپ ماوالناکار نے مزید کہا کہ ہمیں گرمی سے ہونے والی ہلاکتوں کو درست طور پر شمار کرنا ہوگا، کیونکہ اس سے ہی ہمیں معلوم ہو گا کہ شدید گرمی کے درست نتائج کیا ہیں۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔
فورم