بنگالی مسلمان معینل ملاح اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں غیر ملکیوں کے ٹربیونل نے اُنھیں غیر قانونی تارک وطن قرار دیا ہے، جس کے بعد وہ گذشتہ ماہ حراستی مرکز سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے، جب کہ وہ تین سالوں تک قید جھیلتے رہے۔
ملاح نے کہا کہ ’’غیرملکیوں کے ٹربیونل نے اعلان کیا کہ میں غیر ملکی ہوں اور مجھے حراستی مرکز بھیج دیا جہاں مجھے پھر سے بنگلہ دیش دھکیل دیا جانا تھا۔ حیران ہوں کہ میرے معاملے میں یہ کچھ ہوا جس سے قبل ایک اور ٹربیونل نے فیصلہ دیا تھا کہ میرے والدین بھارت کے شہری ہیں‘‘۔
بقول ملاح ’’حقوقِ انسانی کے چند سرگرم کارکنوں نے میرا معاملہ اعلیٰ عدالت (دہلی میں عدالتِ عظمیٰ) لے گئے، اور یوں میں آخرکار حراستی کیمپ سے باہر نکلا۔ میں خوش نصیب ہوں کہ مرکز میں میں ہلاک نہیں ہوا جہاں کی بدترین صورتِ حال میں متعدد لوگ فوت ہوئے؛ جب کہ مجھے بنگلہ دیش واپس دھکیلے جانے کی اذیت ناک صورت حال سے بھی نہیں گزرنا پڑا‘‘۔
کئی دستاویز دکھانے کے باوجود کہ میرے اہل خانہ کئی نسلوں سے آسام میں رہتے رہے ہیں، ملاح کو حراستی مرکز میں ڈال دیا گیا، جنھیں بعد میں بنگلہ دیش بھیجا جانا تھا۔ یہ بات امان ودود نے کہی، جن کا تعلق انسانی حقوق کے گروپ ’مائی فیکٹس‘ کے ساتھ ہے۔
ودود انسانی حقوق کے قانون داں ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’بہت ساری دستاویزات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ معینل ملاح کے دادا کی 1938ء میں آسام میں زرعی زمین تھی۔
معینل کے والد، دادا اور پڑ دادا کے نام سنہ 1951 کے شہریت کے قومی رجسٹر میں شامل تھے۔ ایک ٹربیونل کی جانب سے اُنھیں غیر ملکی قرار دیے جانے کے بعد، معینل نے گوہاٹی کی اعلیٰ عدالت کو متعلقہ دستاویز پیش کیں، جب اُنھوں نے اپیلیں دائر کیں‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ نے ٹربیونل کا فیصلہ بحال رکھا اور بنگلہ دیش بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔
بھارتی شہری پکڑا گیا
جب جولائی میں عدالت عظمیٰ نے ملاح کا مقدمہ دوبارہ جلانے کے احکامات جاری کیے، ’مائی فیکٹس‘ ضمانت پر اُنھیں قید سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئی۔ ودود نے بتایا کہ اُنھیں امید ہے کہ ملاح کو بہت جلد بھارتی شہری قرار دیا جائے گا۔