رسائی کے لنکس

کیا بالی وڈ عالمی سطح کی فلمیں بنا سکتا ہے؟


باربرا موری اور ہتیک روشن فلم کائٹس میں
باربرا موری اور ہتیک روشن فلم کائٹس میں

اس سال مئی میں بالی وڈ کی ایک فلم ’کائٹس ’ دنیا کے 30ممالک میں ریلز ہوئی تھی۔

فلم میں ترک وطن کرکے امریکہ میں آباد ہونے والے دو ایسے جوڑے دکھائے گئے ہیں جن میں ایک کا تعلق بھارت اور اور دوسرے کا میکسیکو سے ہے۔

لاس ویگاس کےپس منظر میں فلمائی جانے والی اس فلم کے نمایاں اداکاروں میں ہریتھک روشن اور میکسیکو کی اداکارہ باربرا موری شامل ہیں۔ فلم پروڈیوسر راکیش روشن نے اِسے عالمی سطح کی ایک بھارتی فلم قرار دیا ہے۔

کائیٹس ہندی فلمی صنعت کی ایک بڑے بجٹ سے بننے والی ایسی فلم ہے جس میں بھارت اور مغربی ممالک کےباشندوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کائٹس عالمی سطح پر وہ توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جیسا کہ اس سے توقعات رکھی گئیں تھیں۔ فلم دیکھنے والے بھارتیوں کا کہنا ہے کہ ہندی، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے مکالموں کی بڑے پیمانے پر آمیزش سے اسے سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

کائیٹس کے ایک مختصر ورژن کو جسے‘دِی ریمکس’ کے نام سے امریکہ اور کئی دوسرے ملکوں میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا، لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

اس ورژن کی ایڈیٹنگ ہالی وڈ کے ڈائریکٹر بریٹ ریٹنر نے کی تھی اور ان کی یہ کوشش ہالی وڈ اور بالی وڈ کے حسین امتزاج کا نمونہ پیش کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

ممبئی کی فلمی صنعت کی ایک تجزیہ کار اور ناقد کومل نہاتا کہتی ہیں کہ بالی وڈ کے پروڈیوسر ایک عرصے سے کوئی ایسی فلم بنانے کی کوشش کررہے تھے جوبھارتیوں اور غیر ملکی فلم بینوں کے لیے یکساں طورپرقابلِ قبول ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ کشیر سرمائے سے بننے والے یہ فلم اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی کیونکہ بھارتی اور غیر ملکی فلم بینوں کی پسند و ناپسند ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

نہاتا کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ نئی مارکیٹ اور نئے فلم بینوں کی تلاش کا معاملہ ہے لیکن بھارتی فلم ساز اپنی اس فلم میں وہ پہلو فراہم کرنے میں ناکام رہے جس سے فلم دیکھنے والے لطف اٹھاسکیں ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ صرف پسند اور ناپسند ہی کا معاملہ نہیں ہے بلکہ دونوں فلم بین طبقوں کے معاشرتی احساسات ، رویے اور سوچ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔

بالی وڈ کے پرستاروں کا ایک وسیع حلقہ ہے جو نہ صرف بھارت بلکہ انڈونیشیا، سری لنکا، پاکستان اور افغانستان سمیت متعدد ایشیائی ممالک میں آباد ہے۔ اوراس کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک میں رہنے والے بھارتی شہریوں کے لیے بھی بالی وڈ کی فلمیں بڑی کشش رکھتی ہیں ۔ دو ارب ڈالر کی اس فلم انڈسٹری کو اپنی آمدنی کا سات فی صد بیرونی منڈیوں سے حاصل ہوتا ہے۔

آسکر ایوارڈیافتہ فلم ‘سلم ڈاگ ملینیئر’ کی کامیابی کے بعد بھارتی فلم سازوں میں اپنی صنعت کا دائرہ مغربی ممالک کے فلم بینوں تک بڑھانے کی خواہش کو تقویت ملی تھی۔ مگر سلم ڈاگ ممبئی کی خستہ حال اور غریب بستیوں میں فلمائی جانے والی ایک برطانوی پروڈکشن تھی ، جس میں مقامی فلمی ستاروں کو بھی اپنی مہارتوں کے جوہر دکھانے کا موقع دیا گیاتھا۔۔ سلم ڈاگ کی کامیابی سے بالی وڈ کے فلم سازوں میں اسی جیسی ہٹ فلم بنانے کی خواہش جاگی تھی۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ بالی وڈ کی فلموں میں ایک ایسی کشش ضرور موجود ہے کہ وہ بھارت اور ایشیا کے روایتی مارکیٹ سے باہر بھی اپنے لیے جگہ پیدا کرسکتی ہے۔ ترن آدرش ،جن کا تعلق ممبئی سے ہے، اس سوچ کے حامی ہیں۔

وہ اِسے ‘بالی وڈ مصالحہ’ کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے رنگ، ہمارے گانے اور ہمارے ڈانس مغربی دنیا کو اپنی جانب کھینچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے کئی لوگوں نے بتایا کہ کہ اگرچہ وہ ہندی نہیں سمجھتے لیکن وہ بالی وڈ کی فلموں کو پسند کرتے ہیں۔

کئی دوسرے فلمی ناقدین کا کہنا ہے کہ حالیہ ہندی فلم، ‘مائی نیم اِز خان ’ کی کئی بیرونی ملکوں میں کامیاب نمائش اس چیز کا ثبوت ہے کہ بالی وڈ کے پرستاروں کا دائرہ وسیع ہورہاہے۔

تاہم نہاتا کہتی ہیں کہ بالی وڈ اور ہالی وڈ کی فلموں کے درمیان حائل خلیج اتنی وسیع ہےکہ اسے پاٹنا آسان نہیں۔

بالی وڈ کے کچھ پروڈیوسر ایسی فلمیں بنانے کے لیے، جو عالمی سطح پر قبولیت حاصل کرسکیں، اپنی سوچ میں تبدیلی لارہے ہیں۔ بھارت کے معروف فلم ساز وِدھو وِنود چوپڑا، اس سال ستمبر میں ‘بروکن ہارسز’ نامی انگریزی فلم کی امریکہ میں شوٹنگ شروع کرنے والے ہیں جس میں وہ بیرونی ملکوں کے فلم بینوں کو بھی اپنے پیش نظر رکھنا چاہتے ہیں۔ اِن کی طرح ، بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی یہ توقع ہے کہ ایسا دِن بھی آئے گا جب بالی وڈ کو، جسے دنیا میں سب سے زیادہ فلمیں بنانے کا اعزاز حاصل ہے، بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا سکہ جمانے کے قابل بن جائے گا۔

XS
SM
MD
LG