بھارت میں جہاں ایک جانب دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معاشی طاقتوں کے رواں ہفتے ہونے والے سربراہ اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں وہیں دارالحکومت نئی دہلی میں مقیم تبتی باشندے اس موقع پر اپنے آبائی علاقے پہ چین کے تسلط کے خلاف احتجاج کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
بدھ مت کے ماننے والے تبتی باشندوں کی بڑی تعداد اپنے روحانی پیشوا دلائی لاما کی طرح بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہے اور 'برکس' کے نام سے معروف پانچ ترقی پذیر معاشی طاقتوں کے سربراہ اجلاس کے موقع پر کیا جانے والے ان کا مجوزہ احتجاج بجا طور پر دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا۔
بھارت کی میزبانی میں ہونے والے اس سربراہ اجلاس میں چین کے صدر ہوجن تائو سمیت برازیل، روس اور جنوبی افریقہ کے رہنما بھی شریک ہونگے۔
گو کہ دنیا میں تیز ترین ترقی کرنے والی معاشی طاقتیں ہونے کے ناطے چین اور بھارت ماحولیاتی تبدیلیوں، بین الاقوامی مالیاتی بحران، خطے کی سلامتی اور استحکام سمیت بیشتر عالمی امور اور مسائل پر یکساں موقف اختیار کرتے رہے ہیں لیکن دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی تاریخ تنازعات سے بھرپور ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان ایک بڑی وجہ نزاع دلائی لاما کی بھارت میں موجودگی ہے جو 1959ء میں چین سے نکلنے کے بعد سے شمالی بھارت کے قصبے دھرم شالا میں مقیم ہیں۔
دلائی لاما کے دھرم شالا میں قیام کے بعد سے اب تک وہاں ہزاروں تبتی باشندے آباد ہوچکے ہیں اور یہ شہر ان کا اہم مذہبی اور سیاسی مرکز بن گیا ہے۔
دھرم شالا کو تبت کی جلا وطن حکومت کے دارالخلافہ کی حیثیت حاصل ہے جو یہاں سے تبت کی خود مختاری کی عالمی تحریک منظم کرتی ہے۔
لیکن ماہرینِ سیاست کا کہنا ہے چین اور بھارت دو طرفہ مذاکرات میں اس معاملہ کو اٹھانے سے گریز کرتے آئے ہیں اور چینی صدر کے دورہ بھارت کے دوران میں تبتی باشندوں کے احتجاج کے باوجود گریز کی اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
لیکن اس کے باوجود عالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ اس احتجاج کی جانب مبذول ہوچکی ہے۔ تبتی باشندوں کے ایک گروہ نے پیر کو نئی دہلی میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس کے دوران میں ایک 27 سالہ جلا وطن تبتی باشندے جمفل ییشی نے احتجاجاً خود کو نذرِ آتش کرلیا تھا جو بدھ کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا۔
واقعہ کے فوری بعد چین نے اس احتجاج کی منصوبہ بندی کا الزام دلائی لاما پر عائد کیا تھا لیکن چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان اپنے مذمتی بیان میں بھارت کے ذکر سے دامن بچا گئے تھے۔
ماہرین کے بقول چین کی جانب سے تبتی باشندوں کے احتجاج پر بھارت پہ تنقید سے گریز اس بات کا اظہار ہے کہ چینی حکام کو بھارت کی اندرونی صورتِ حال کا ادراک ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت سمجھتی ہے کہ بھارت ایک آزاد معاشرہ ہے جسے کئی طرح کے اندرونی سیاسی مسائل درپیش ہیں۔
چین اور بھارت کے درمیان ہمالیہ کے علاقے میں سرحدی تنازعات بھی پائے جاتے ہیں جن پر دونوں ممالک کے درمیان 1962ء میں ایک جنگ بھی ہوچکی ہے۔
لیکن حال ہی میں نئی دہلی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے متنازع سرحدوں کی نگرانی اور تنازعات کے حل کے لیے سلسلہ وار ملاقاتوں کا نظام الاوقات مرتب کرنے پہ اتفاق کیا تھا۔
ہوجن تائو کا حالیہ دورہ بھارت دو روز پہ محیط ہے جس کے دوران میں وہ 'برکس' کے سربراہی اجلاس میں شرکت اور شریک ممالک کے سربراہان سے ملاقاتوں کے علاوہ بھارتی قیادت سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان ملاقاتوں کے دوران میں بھارتی قیادت دو طرفہ تجارت کا معاملہ اٹھائے گی جو گو کہ تاریخ کی بلند ترین سطح 74 ارب ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے لیکن اس کا زیادہ تر فائدہ چینی برآمدات کو پہنچ رہا ہے۔