بابا رام دیو اور حکومت کے مابین مذاکرات کی ناکامی کے بعد دہلی پولیس نے نصف شب دھاوا بول کر بابا کی بھوک ہڑتال ختم کرادی اور صبح تک رام لیلہ میدان کو اُن کے مداحوں سے خالی کرالیا۔
اِس کے لیے اُس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج کیا جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے۔
ہفتے کی شب ایک بجے جب اعلیٰ پولیس حکام اسٹیج پر بابا رام دیو کے پاس پہنچے اور اُن سے کہا کہ اُن کے یوگا کیمپ کی منظوری منسوخ کی جاتی ہے تو پولیس سے بچنے کے لیے وہ اسٹیج سے کود کر خواتین کے مجمعے میں چلے گئے۔
کافی دیر کے بعد جب پولیس اُنھیں پکڑنے میں کامیاب ہوئی تو وہ زعفرانی چوغے کی بجائے عورتوں کے لباس شلوار قمیض میں نظر آئے۔
پولیس نے اُن کو بذریعہ طیارہ دھرا دون کے قریب اُن کے آشرم میں پہنچا دیا اور اُن پر 15دِنوں تک دہلی میں داخل ہونے پر پابندی عائد کردی۔
بابا نے آشرم میں شلوار قمیض ہی میں ایک نیوز کانفرنس کی اور حکومت پر الزام لگایا کہ اُس نے اُن کے قتل کی سازش رچائی تھی۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر اُن کو کچھ ہوجاتا ہے تو اُس کی ذمہ دار کانگریس حکومت اور سونیا گاندھی ہوں گی۔ اُنھوں نے پولیس پر عورتوں اور بچوں پر زیادتی کرنے کا بھی الزام لگایا۔
بابا رام دیو نے اپنے گلے میں پڑے ہوئے رومال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو کر کہا کہ پولیس نے اُس سے اُن کی گردن کَس دی تھی۔ جب کہ، پولیس نے اِن الزامات کی تردید کی ہے۔ اسپیشل پولیس کمشنر دھرمندر کمار نے نئی دہلی میں ایک اخباری کانفرنس میں کہا جو لوگ زخمی ہوئے ہیں وہ پتھراؤ اور گرنے سے ہوئے ہیں، جِن میں متعدد پولیس والے بھی شامل ہیں۔
حکومت نے پولیس ایکشن کو یہ کہتے ہوئے جائز ٹھہرانے کی کوشش کی ہے کہ پولیس نے رام دیو کو یوگا کیمپ لگانے کی اجازت دی تھی جس کی اُنھوں نے خلاف ورزی کی اور یوگا آسن کے بجائے، بقول اُن کے، سیاسی آسن کا پاٹھ پڑھنا شروع کردیا۔
مرکزی وزیر کپیل سبل نے بابا کو دھوکے باز قرار دیتے ہوئے آئندہ اُن سےبات چیت نہ کرنے کا اعلان کیا، جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نےپولیس ایکشن کی مذمت کی ہے اور اُسےجمہوریت کے قتل سےتعبیر کیا ہے۔