کیا پھانسی کا پھندہ دہشت گردی سے پاک پاکستان بنائے گا؟ کیا سزائے موت کے آٹھ ہزار قیدی، جو انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اس وقت پاکستان کی جیلوں میں موجود ہیں اور جن میں سے تقریباً، ایک ہزار قیدیوں کی رحم کی اپیلیں مسترد کی جا چکی ہیں، سب کے سب بڑے مجرم ہیں؟
اس موضوع پر وائس آف امریکہ اردو کے پروگرام انڈی پنڈنس ایونیو میں بات کرتے ہوئے دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل ریٹائرڈ جمشید ایاز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ حکومت کو بحالت مجبوری موت کی سزا پر عمل درآمد سے پابندی اٹھانی پڑی۔ جو لوگ کئی سال سے جیل میں موت کی سزا کا انتظار کر رہے تھے اور جن کے جرائم سنگین نوعیت کے تھے ، ان کے لئے انصاف کے تقاضوں کے ساتھ موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کا فیصلہ بروقت اور مناسب ہے۔
شرط صرف یہ ہونی چاہئے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔ انہیں کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی سزا نہ مل رہی ہو۔ اسلام اور انسانیت کا اصول ہے کہ انصاف مکمل اور مناسب ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ موت کی سزاؤں پر عمل درآمد سے دہشت گردی میں کمی آئے گی۔ ایسا راتوں رات نہیں ہوگا لیکن ہوگا ضرور۔
ہیومن رائٹس واچ کے پاکستان کے لیے سابق ڈائریکٹر علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں موت کی سزا کی اجازت ہے۔ لیکن بین الاقوامی فضا یہی ہے کہ کئی ملک سزائے موت پر رضاکارانہ پابندی کے خواہش مند ہیں۔
امریکہ میں بھی سزائے موت پر عمل درآمد ہوتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک سزا جو اذیت ناک اور ناقابل رد و بدل ہے۔ ایک دفعہ کسی کو غلط سزائے موت ہو جائے تو کوئی تلافی کی صورت نہیں ہو سکتی۔
علی دایان حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حالات سزائے موت پر عمل درآمد روکنے سے خراب نہیں ہوئے تھے۔ شفقت حسین، جسے ’’چودہ سال‘‘ کی عمر میں سزائے موت سنائی گئی کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ دہشت گردی کی دفعات کو دیگر جرائم کے مقدمات چلانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اُن کے بقول جن آٹھ ہزار افراد میں سے جنہیں سزائے موت مل چکی ہے، زیادہ تر کا تعلق کالعدم تنظیموں سے نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے قانون میں دہشت گردی کی دفعات کے مطابق وال چاکنگ سے لے کر کسی کی بیوی کا کسی دوسرے کے شوہر کے ساتھ بھاگ جانا، تک دہشت گردی کے زمرے میں آسکتا ہے۔
ان کے بقول، ’’خونریزی کی جو رو ، ریاست کے نام پر چل رہی ہے ۔ اسے ختم کرنا پڑے گا۔ اور حل یہی ہے کہ جیلیں بہتر بنائی جائیں تاکہ دہشت گرد فرار نہ ہو سکیں‘‘۔
لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قانونی نظام خامیوں سے مبرا نہیں ہے۔ قانون کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک بے گناہ کو موت دینے کے بجائے مناسب ہے کہ ایک ہزار مجرموں کو معاف کر دیا جائے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کے نظام انصاف میں کمزوریاں موجود ہیں، لیکن ان کے بقول، ملک کی صورتحال موت کی سزا ختم کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ یہ سوچنا کہ جس کسی کو موت کی سزا ہوئی ہے، وہ بالکل معصوم اور بے گناہ ہے۔ ایسا بھی شازونادر ہی ہوتا۔
جسٹس ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی موت کی سزا جرم کم کرنے کے آخری طریقے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اگر اسے ختم کر دیا جائے، تو پندرہ سال میں مجرم جیل سے باہر آ کر پھر وہی جرم کرتا ہے۔
ناصرہ جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی تعریف کے مطابق ہر وہ شخص دہشت گرد ہے، جو اپنے جرم سے لوگوں میں دہشت پیدا کرے۔ کوئی کسی بچے کو اغو کر لے، زیادتی کر کے مار دے تو یہ دہشت گردی ہی کہلائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو سات دن میں فیصلہ سنانے کی ہدایت تو دی جاتی ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جائے تو سزا نہیں ہوتی۔ اصل کوشش یہی ہوتی ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
امریکی ریاست واشنگٹن کی سی ایٹل یونیورسٹی کے پروفیسر آف لاء ڈاکٹر طیب محمود کا کہنا تھا کہ امریکہ میں قانونی نظام خامیوں سے مبرا نہیں ہے، لیکن 1976ء سے امریکہ میں سزائے موت پر عمل درآمد ہو رہا ہے اور سال میں ایک آدھ مقدمہ ایسا ضرور آتا ہے، جس میں بعد میں پتا چلتا ہے کہ جسے سزا ملی تھی وہ بے گناہ تھا۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ ایسے کوئی اعداد و شمار موجود نہیں جو ثابت کرتے ہوں کہ کہیں موت کی سزا سے جرائم میں کمی آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ میں 1976ء میں سزائے موت دوبارہ لاگو ہونے کے بعد بھی جرائم ہوتے رہے۔ نیویارک میں جرائم 1990ء کی دہائی میں کم ہوئے جب لوگوں کی معاشی حالت میں بہتری آئی۔
ڈاکٹر طیب محمود کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کے 58 ملکوں میں موت کی سزا لاگو ہے۔ 140ملکوں میں اسے باقاعدہ طور پر ختم کر دیا گیا ہے یا اس پر عمل درآمد زیادہ نہیں کیا جاتا۔ لیکن جن ملکوں میں موت کی سزا نہیں ہے وہاں جرم امریکہ، انڈیا یا افریقی ملکوں کے مقابلے میں کہیں کم ہے، جہاں موت کی سزا موجود ہے اور ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ موت کی سزا سے جرم کم ہوا ہے۔
ڈاکٹر طیب محمود کا کہنا تھا کہ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ موت کی سزا پر عمل درآمد سے پابندی کس طرح اٹھائی گئی؟ پشاور کے آرمی سکول میں دہشت گردی کا واقعہ افسوسناک تھا لیکن ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے رہے ہیں۔
’’ریاست کا ردعمل، انسانوں کے ردعمل جیسا نہیں ہوسکتا۔ لوگوں کو موت کی سزائیں دی جا رہی ہیں۔ دس سال بعد پتہ چلے گا کہ قتل کا مقدمہ خاندانی عداوت کی وجہ سے تھا۔ سزائے موت پر عمل درآمد سے میرے خیال میں توجہ دہشت گردی کے اصل مسئلے سے ہٹ رہی ہے‘‘۔
ڈاکٹر طیب محمود کا کہنا تھا کہ دنیا کے جن ملکوں میں ان مسائل پر قابو پایا گیا ، وہاں مجرموں کو سزا کے ساتھ تربیت اور بحالی کا نظام قائم کیا گیا ہے۔ مجرموں کو کونسلرز، ذہنی اور جسمانی علاج کرنے والے ماہرین مہیا کئے گئے ہیں۔
’’کسی معاشرے کا کریمینل جسٹس سسٹم اس معاشرے کی خرابیوں کا عکاس ہوتا ہے۔ ہم تو ابھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں ٹھیک سے دے سکے، جیلوں میں بحالی کیسے کریں گے ۔ لیکن اس مسئلے کا حل دور اندیشی اور تحمل سے نکالنے کی ضرورت ہے۔‘‘