پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے اقتدار کے ابتدائی عرصے میں اگرچہ بیرونی ملکوں کے دوروں سے گریز کا عندیہ دیا تھا لیکن وجوہات کچھ بھی رہی ہوں سب سے پہلے ان کا سعودی عرب جانا ہوا، پھر چین اور متحدہ امارات اور اس کے بعد انہوں نے ملائیشیا کا دورہ کیا۔
ان پہلے تینوں غیرملکی دوروں کا تعلق تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کی معاشی ضرورتوں سے ہے جبکہ ملائیشیا کے دورے کے بارے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان، مہاتیر محمد کو اپنے ایک آئیڈل راہنما کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
اس دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون کے کئی ایک معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں اور عمران خان نے ایک بار پھر یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ملائیشیا کا ماڈل اختیار کرنا چاہتے ہیں اور ان کے تجربات سے استفادہ کی خواہش رکھتے ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب وزیراعظم عمران خان ملائیشیا کی معاشی ترقی کے اسباب سمجھنے میں پرجوش نظر آتے ہیں، کئی تجزیہ کار یہ کہہ رہے ہیں کہ ملائیشیا اور پاکستان دو مختلف اکائیاں ہیں۔ دو مختلف ملک ہیں جن کا سماج اور ملک میں آباد قومیتوں کی جہتیں بہت مختلف ہیں۔
نقاد یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مہاتیر محمد کو بذات خود اپنے غیرحقیقت پسندانہ انتخابی نعروں اور بالخصوص ابتدائی سو دن کے ایجنڈے پر قوم سے معذرت کرنا پڑی کیونکہ وہ اس عرصے میں چند نکات پر ہی کام کر پائے، لہٰذا عمران خان کو وہ کیا بتا سکیں گے کہ پہلے سو دن میں کیسے ڈیلیور کرنا ہے۔
پروگرام جہاں رنگ میں عمران خان کی تحریک کی عشروں سے حمایت کرنے والے مگر ان کے نقاد اور پاکستان کے معروف صحافی، کالم نگار ہارون رشید سے جب یہ پوچھا گیا کہ ملائیشیا کے راہنما مہاتیر محمد پاکستان کے کپتان کے آئیڈیل کیوں ہیں تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ حسن اتفاق ہے کہ خان کو مہاتیر کا راستہ میں نے ہی دکھایا تھا۔
’’ چودہ پندرہ برس پہلے کی بات ہے میں نے عمران خان سے کہا کہ مہاتیر محمد آپ کو پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بھی لگتا ہے کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں ملے تھے۔ میں نے کہا جائیے ان سے ملیے وہ اس وقت دنیا کے حکمرانوں میں ایک سیاسی مدبر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ملک کی معیشت ٹھیک کی ہے، ملکی سیاست کو بھی ٹھیک چلایا ہے، ملک کو غربت سے نکالا ہے۔ ان کا تجربہ بہت ہے۔۔ اور یہی مسائل پاکستان کے بھی ہیں‘‘
ہمارا سوال تھا کہ تو کیا عمران خان کی پھر تفصیلی ملاقات ہوئی مہاتیر محمد سے؟ اس پر ہارون رشید نے بتایا کہ جب مہاتیر اقتدار میں نہیں تھے، عمران خان ان کے گھر پر گئے اور تین چار گھنٹے ان کے ساتھ رہے۔
ہارون رشید نے ایک دلچسپ بات یہ بتائی کہ عمران خان نے میرے اصرار پر مہاتیر محمد کو پاکستان کے دورے کی دعوت دی جو خان صاحب کو بہت مہنگی پڑی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب مہاتیر اقتدار میں نہیں تھے اور نجی حیثیت سے پاکستان آئے تھے۔ ہارون رشید کہتے ہیں۔
’’ دعوت تو دے دی گئی۔ مہاتیر محمد پاکستان میں تین دن کے لیے عمران خان کے مہمان بنے اور اس مہمان داری میں عمران خان کو 30 لاکھ روپے کا قرض لینا پڑا جو بڑی مشکل سے ادا کیا گیا۔ اس وقت کون چندہ دیتا تھا‘‘
ہارون رشید کہتے ہیں کہ مہاتیر محمد عمران خان کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ اگر پاکستان میں ان جیسا کوئی شخص اقتدار میں ہوتا تو پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا جا سکتا ہے۔ بقول ہاروں رشید کے، مہاتیر محمد پاکستانی قوم کی کام کرنے کی اہلیت کے بہت معترف ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کام ملائیشیا کا شہری ایک سال میں سیکھتا ہے، پاکستانی شہری اسی کام میں چھ ماہ میں ماہر ہو جاتا ہے۔
ہمارا ایک اور سوال یہ تھا کہ تو کیا عمران خان خان مہاتیر محمد سے سیاست اور معیشت کے پیچیدہ دروازوں کی کنجی لے آئیں گے؟ اس پر ہاروں رشید نے کہا کہ عمران خان کے اندر سیاست اور معیشت دونوں کو سمجھنے کی اہلیت نہیں۔۔البتہ وہ ایماندار ہیں اور ان کی شخصیت میں کرشمہ ہے۔ وہ نیک نیتی سے کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہیں تو پیغام بہت دور تک جاتا ہے۔
تحریک انصاف کے رکن قومی اسبملی سلیم رحمن پراعتماد ہیں کہ ملائیشیا کا عمران خان کا موجودہ دورہ مہاتیر محمد کے تجربات سے استفادے کا ذریعہ ثابت ہو گا۔
نواز لیگ کے راہنما سینیٹر کیپٹن شاہین بٹ کہتے ہیں کہ خان صاحب باہر کے دورے ضرور کریں، دوسرے ملکوں کے تجربات سے استفادہ بھی کریں مگر دوسرے ملکوں میں جا کر ملک کے اندررونی سیاسی مسائل پر بات کرنے سے گریز کریں تو بہتر ہے۔
تجزیہ کار ہارون رشید اور اویس توحید بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بیرونی ملکوں کے دوروں میں اپنے حریف سیاستدانوں کے خلاف کڑے احتساب کے نعروں سے گریز روا رکھا جائے تو بہتر ہے۔