پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسی کو سراہتے ہوئے اُمید ظاہر کی ہے کہ نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن بھی اسی پالیسی کو برقرار رکھیں گے۔
بدھ کو 'ورلڈ اکنامک فورم' کے اجلاس سے ورچوئل خطاب میں عمران خان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ افغان امن عمل شروع کرنا ان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
پاکستانی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں تسلسل کی ضرورت ہے اور انہیں اُمید ہے کہ جو بائیڈن بھی اس عمل کو جاری رکھیں گے۔ عمران خان نے کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف بات چیت سے ہی ممکن ہے۔
وزیرِ اعظم عمران نے کہا کہ "صدر ٹرمپ نے ایک بڑا کام کیا اور مجھے یقین ہے کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن اس عمل کو ختم نہیں کریں گے۔ کیوں کہ بات چیت کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔"
عمران خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جب کہ بین الافغان مذاکرات کے لیے بھی پاکستان نے کوششیں کیں۔
اس معاملے پر افغان امور کے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے بڑے فیصلے کیے جو اُن کے لیے کافی مشکل تھے۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول یہ فیصلے صدر ٹرمپ کے انتخابی وعدوں اور منشور کا حصہ تھے جن میں اُنہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ طویل جنگوں کا خاتمہ کر کے اپنی فوجیں واپس بلائیں گے۔
رحیم اللہ کہتے ہیں کہ طالبان بھی صرف امریکی حکومت سے بات چیت کے لیے رضا مند ہوئے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کابل حکومت درحقیقت امریکہ کی ہی نمائندہ ہے۔
ان کے بقول عمران خان کی یہ خواہش ہے کہ جو بائیڈن افغانستان میں امریکہ کی پالیسی کو جاری رکھیں کیوں کہ بعض حلقوں کو خدشہ ہے کہ نو منتخب صدر افغانستان سے متعلق پالیسیوں کا ازسرِ نو جائزہ لے سکتے ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے بقول اُنہیں نہیں لگتا کہ بائیڈن قیامِ امن کے لیے اُٹھائے گئے ان اقدامات کو رد کریں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بائیڈن آب و ہوا کی تبدیلیوں سے متعلق پیرس معاہدے میں شامل ہونے جیسے فیصلے تو کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ خود بھی افغانستان سے اپنی فوج کے انخلا کے حق میں ہیں۔
رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق جو بائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ شدت پسند تنظیموں داعش اور القاعدہ کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ امریکی فوج افغانستان میں رکھیں گے۔ البتہ اس کے لیے اُنہیں طالبان کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔
خیال رہے کہ طالبان نے رواں سال فروری میں طے پانے والے افغان امن معاہدے میں مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کے عوض نیٹو اور امریکی فورسز کے خلاف حملے نہ کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
طالبان نے امریکہ کو یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ وہ افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، جب کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں سے بھی رابطے نہیں رکھیں گے۔
رواں سال ستمبر میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع ہوا۔ اگرچہ ان مذاکرات میں کوئی نمایاں پیش رفت نہیں ہوئی، لیکن وزیرِ اعظم عمران خان پراُمید ہیں کہ ان مذاکرات میں بھی 'بریک تھرو' ہو جائے گا جس سے لامحالہ افغانستان میں دیرپا امن قائم ہو گا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ افغانستان میں اب بھی تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے بقول یہ صورتِ حال پاکستان کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن نہ صرف افغان عوام بلکہ پاکستان کے بھی مفاد میں ہے۔