رسائی کے لنکس

دھاندلی کی تحقیقات میں مکمل تعاون کریں گے: عمران خان کی وکٹری اسپیچ


پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان وکٹری اسپیچ کرتے ہوئے۔
پی ٹی آئی کے چیرمین عمران خان وکٹری اسپیچ کرتے ہوئے۔

عمران خان نے کہا کہ احتساب مجھ سے شروع ہو گا اور پھر وزرا کی باری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم ھاؤس میں نہیں رہوں گا اور اپنے کام کیلئے ایک چھوٹی جگہ حاصل کروں گا۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیرمین عمران خان آج بنی گالا میں اپنی رہائش گاہ سے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی فتح کا اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر میں کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ سب سے زیادہ شفاف اور منصفانہ انتخابات تھے۔ انہوں نے دیگر پارٹیوں کے اعتراضات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ​ہم ہر اُس حلقے کو کھلوائیں گے جہاں کچھ پارٹیاں سمجھتی ہیں کہ وہاں دھاندلی ہوئی ہے۔ "ہم خود اُن کے ساتھ مل کر تحقیقات کرائیں گے."

عمران خان نے کہا کہ احتساب مجھ سے شروع ہو گا اور پھر وزرا کی باری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ میں وزیر اعظم ھاؤس میں نہیں رہوں گا اور اپنے کام کیلئے ایک چھوٹی جگہ حاصل کروں گا۔

غربت اور روزگار کے مسائل پر بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ "ہماری پالیسیاں اشرافیہ کیلئے نہیں بلکہ ملک کے نچلے طبقے کو اوپر اُٹھانے کیلئے بنیں گی۔"

ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کی بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں عوام نے بہت مشکل وقت گزارا ہے۔ ہم افغانستان میں قیام امن کیلئے ہر ممکن مدد کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ا​یران اور سعودی عرب سے برادرانہ تعلقات کو اور بھی بہتر بنائیں گے۔

عمران خان نے بھارت کے ساتھ بلیم گیم کا سلسلہ ختم کر کے اچھے تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا اور کہا کہ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا ان کی ترجیح ہو گی کیونکہ یہ دونوں ملکوں اور خطے کے لیے فائدہ مند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات دو طرفہ مفاد کی بنیاد پر استوار کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین نے کہا کہ ’’افغانستان میں امن سے پاکستان میں امن آئے گا‘‘، اور یہ کہ ’’پاکستان کو لڑائی میں شرکت کے بجائے اسے ختم کرنے والا ملک بننا چاہیئے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ’’تمام ہمسایہ ملک جن میں افغانستان، چین، بھارت اور ایران شامل ہیں، تعلقات کو فروغ دینے کی فوری ضرورت ہے‘‘۔

انتخابات میں کامیابی کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اُنھوں نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’ان تعلقات کو مزید فروغ دینے کی ضرورت ہے‘‘، جس سلسلے میں اُنھوں نے ’سی پیک‘ کا خصوصی حوالہ دیا، جس کے نتیجے میں، بقول اُن کے، معاشی میدان میں ترقی کی راہیں کھلی ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’امریکہ کے ساتھ متوازن تعلقات چاہتے ہیں‘‘۔

بھارت کے ساتھ مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ ’’تمام مسائل ڈائلاگ سے حل ہوں گے‘‘۔ بقول اُن کے’’ اگر بھارت تیار ہے تو ہم بھی مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ اگر بھارت سے دوستی ہو تو بھارت کے ساتھ مرکزی مسائل مکالمے کے ذریعے حل ہوسکتے ہیں‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’بھارت کے ساتھ تجارت کے شعبے میں اچھے تعلقات قائم ہو سکتے ہیں‘‘؛ ساتھ ہی اُنھوں نے کشمیر کے مسئلے کا ذکر کیا اور کہا کہ ’’یہ مسئلہ میز پر بیٹھ کر حل کیا جا سکتا ہے‘‘۔

اِس ضمن میں، عمران خان نے کہا کہ ’’اگر بھارت کی قیادت ایک قدم آگے بڑھائے گا، تو ہم دو قدم بڑھائیں گے‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’بلیم گیم‘ کے ’’لاحاصل چکر میں پڑنے کے بجائے، ہمیں صاف گوئی سے اصل مسائل کو مدِنظر رکھنا اور حل کرنا ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، جس سے تعلقات کو فروغ دیا جائے گا‘‘۔ ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا ہے‘‘۔

مشرق وسطیٰ کشیدگی اور تنازعات کا ذکر کرتے ہوئے، تحریک انصاف کے چیرمین نے کہا کہ ’’پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیئے‘‘۔

ادارہ سازی پر زور دیتے ہوئے، عمران خان نے کہا کے حاکمیت (گورننس) کے نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

بقول اُن کے، ’’ملک میں سرمایہ کاری اس لیے نہیں آرہی ہے کہ ہمارے اداروں کی حالت دگرگوں ہے، نااہلی، بدعنوانی اور رشوت ستانی کا دور دورہ ہے اور ملک معاشی بحران کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے، جس سے نکلنا ایک بہت بڑا کام ہوگا‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ’ملک سازی‘ کے کام میں شریک کرنا ہوگا، تاکہ سرمایہ کاری آئے، ہنرمندی اور مسابقت کا ماحول بڑھے، اور ملک ترقی کرے۔ اُنھوں نے کہا کہ بدعنوانی کے باعث لوگ پاکستان آنے سے گھبراتے ہیں اور درکار سرمایہ کاری نہیں ہو پاتی۔

پی ٹی آئی کے چیرمین نے وعدہ کیا کہ ’’کسی کے خلاف سیاسی انتقام پر مبنی کارروائی نہیں ہوگی‘‘، اور ملک میں اتحاد کے فروغ پر زور دیا۔

’ٹیکس نظام‘ میں بہتری لانے کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا عطیہ دہندہ معاشرہ ہے، لیکن جب معاملہ ٹیکس کا ہو تو یہاں ٹیکس چوری عام ہے‘‘۔ ’ٹیکس کلچر‘ کو رواج دینے کی ضرورت ہے، جس ضمن میں ’فیڈرل بورڈ آف روینیو‘ کو نئے سرے سے تشکیل دیا جائے گا؛ جب کہ ’نیشنل اکاؤنٹ ابیلٹی بیورو‘ کو مضبوط و فعال بنایا جائے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ پاکستان کو امن و استحکام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

بدعنوانی پر کنٹرول کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ پاکستان چین سے دو باتیں سیکھ سکتا ہے، غربت کا خاتمہ اور رشوت ستانی سے چھٹکارا ۔

افغانستان اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ذکر کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا کہ جہاد اور دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے معاملے پر افغان عوام کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے، جس جانب دھیان دینے اور مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔

اُنھوں نےتجویز کیا کہ یورپی یونین کی طرز پر افغانستان و پاکستان کے ’اوپن بارڈرز‘ ہونے چاہئیں؛ جس کے لیے حالات کو سازگار بنانے پر کام کرنا ہوگا۔

سادگی اپنانے کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ اشرافیہ کی جانب سے ٹیکس دہندگان کے پیسے پر عیاشی اور شان و شوکت سے رہنے کی روش کو ختم کرنا ہوگا، اور وعدہ کیا کہ اس سلسلے کا آغاز اُن کی سطح سے ہوگا۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو ایسا ملک بناؤں گا جس میں پسے ہوئے غریب طبقات اور مظلوم طبقے کو آگے آنے کا موقع ملے اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا‘‘۔

XS
SM
MD
LG