رسائی کے لنکس

عمران خان کا دورۂ امریکہ، امریکی خفیہ ایجنسی مشکل میں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان 20 جولائی سے امریکہ کا سرکاری دورہ کر رہے ہیں اور انہوں نے سادگی اپنانے اور سرکاری اخراجات میں کمی کی پالیسی کے تحت واشنگٹن ڈی سی میں کسی مہنگے ہوٹل میں قیام کرنے کی بجائے پاکستانی سفیر اسد مجید خان کی سرکاری رہائش گاہ میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تاہم انگریزی روزنامے ڈان میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق امریکہ کی خفیہ سروس سیکورٹی خدشات کے پیش نظر اس تجویز سے متفق نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ نے اس سلسلے میں خفیہ سروس اور واشنگٹن کی شہری انتظامیہ سے ان کا مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تاحال ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

واشنگٹن میں پاکستانی سفیر کی سرکاری رہائش گاہ واشنگٹن کے پوش علاقے میں واقع ہے جو اتنی بڑی نہیں ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم اور ان کا پورا وفد وہاں قیام کر سکے۔ تاہم اگر عمران خان سفیر کی رہائش گاہ میں قیام کا فیصلہ کر ہی لیتے ہیں تو ان کے وفد میں شامل دیگر ارکان کو کسی اور جگہ ٹھہرانا ہو گا۔

اس صورت حال میں امریکی اہل کاروں اور دیگر شخصیات سے ملاقات کے لیے انہیں مسلسل پاکستانی سفارت خانے جانا ہو گا اور تین روز تک پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ اور سفارت خانے کے درمیان کے روٹ کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ یوں عمران خان کے کانوائے کی سیکورٹی کی خاطر امریکہ کی خفیہ سروس کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو جائے گا۔

ساتھ ہی یہ بھی سوچنا ہو گا کہ کیا تمام میٹنگز سفارت خانے میں رکھی جا سکتی ہیں۔ عام طور پر سفارت خانے میں ہونے والی میٹنگز سفیر کے دفتر کے ساتھ منسلک میٹنگ روم یا پھر کانفرنس روم میں ہوتی ہیں۔

اس سلسلے میں جب وائس آف امریکہ نے پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو سفارت خانے کے ایک اعلیٰ اہل کار کا کہنا تھا کہ سفارت خانہ اس سلسلے میں امریکی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور ابھی یہ حتمی فیصلہ نہیں ہوا کہ پاکستانی وزیر اعظم سفیر کی رہائش گاہ پر قیام کریں گے یا نہیں۔

عام طور پر سرکاری دوروں پر آنے والے غیر ملکی سربراہان اور ان کے وفد وائٹ ہاوس کے قریب ہی واقع ویلرڈ ہوٹل میں قیام کرتے ہیں اور ان کی زیادہ تر میٹنگز بھی یہیں ہوتی ہیں۔

جب سفارت خانے کے اہل کار سے پوچھا گیا کہ سفیر کی رہائش گاہ میں قیام کی صورت میں عمران خان کی تمام شیڈولڈ ملاقاتیں سفارت خانے میں ہوں گی تو انہوں نے کہا کہ صرف بزنس فورم کا اجلاس سفارت خانے میں ہو گا اور باقی تمام ملاقاتیں سفارت خانے کی بجائے دیگر مقامات پر ہوں گی جن کا تعین کیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے یہ مقامات شہر کے کسی ہوٹل کے میٹنگ اور کانفرنس روم ہوں گے۔

عمران خان کے دورے کے دوران امریکہ میں تحریک انصاف ایک خصوصی جلسے کا اہتمام بھی کر رہی ہے جس سے عمران خان خطاب کریں گے۔ امریکہ میں پی ٹی آئی کے بعض ارکان سوشل میڈیا پر یہ پوسٹس لگا رہے ہیں کہ اس جلسہ عام میں بنا ٹکٹ ہر خاص و عام کو شرکت کی دعوت ہے۔ دعوت نامے میں جلسہ عام کے لیے 21 جولائی کو شام چار بجے کا وقت دیا گیا ہے۔ تاہم کہا گیا ہے کہ جگہ کا تعین بعد میں کیا جائے گا۔

یہاں ایک بار پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا عمران خان واشنگٹن میں جلسہ عام کر سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسا جلسہ صرف بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کیا تھا جو وزیرِ اعظم بننے کے بعد پہلی بار جب امریکہ آئے تو اقوامِ متحدہ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے بعد انہوں نے نیویارک میں بھارتی کمیونٹی کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا تھا۔

سفارت خانے کے اہل کار کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی جلسہ نہیں ہو گا بلکہ یہ پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات ہو گی اور اس کے مقام کا تعین ابھی نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بھی وزیر اعظم نواز شریف یا صدر آصف زرداری کی واشنگٹن آمد کے موقع پر ان سیاسی جماعتوں کی واشنگٹن شاخ فعال ہو جاتی تھی اور یہاں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا جاتا تھا جس سے وہ خطاب کرتے تھے۔

ہر سال مختلف ملکوں کے سربراہان اور دیگر اعلیٰ شخصیات امریکی دارالحکومت آتے ہیں اور ان کے قیام کے دوران سیکورٹی کی تمام تر ذمہ داری امریکی خفیہ سروس اور آفس آف سیکورٹی پر عائد ہوتی ہے۔ سیکورٹی انتظامات شہری انتظامیہ کے ساتھ مل کر کیے جاتے ہیں کیونکہ شہری انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی اعلیٰ شخصیت کے دورے سے شہر کے باسیوں کے لیے کوئی دشواری پیدا نہ ہو۔

ڈان نیوز کے مطابق امریکہ کی خفیہ سروس اور ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کی انتظامیہ دونوں ہی پاکستانی وزیر اعظم کے سفیر کی رہائش گاہ پر قیام سے مطمئن نہیں ہیں۔ تاہم اگر وہ سفیر کی رہائش گاہ پر قیام کرنے کے ارادے پر قائم رہنا چاہتے ہیں تو انہیں امریکی خفیہ سروس اور آفس آف سیکورٹی کو تحریری طور پر اطلاع دینا ہو گی۔

لیکن چونکہ واشنگٹن میں قیام کے دوران قانونی طور پر سیکورٹی کی ذمہ داری امریکی خفیہ سروس اور آفس آف سیکورٹی کی ہوتی ہے لہذا یہ امکان کم ہے کہ وہ اس بات پر راضی ہو سکیں گے۔ یوں غالب امکان یہی ہے کہ عمران خان کو اپنے قیام سے متعلق فیصلہ بدلنا پڑے گا۔

XS
SM
MD
LG