وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ عوام کا بوجھ کم کرنے کے لیے اُن کی حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے رجوع کرنے سے پہلے دوست ملکوں سے مدد مانگی جائے؛ ’’جس کوشش میں‘‘ بقول اُن کے، ’’سعودی عرب کی مدد سے ہم کامیاب ہوگئے ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’ہمیں سعودی عرب سے زبردست پیکیج مل گیا ہے، جس پر ہم سعودی عرب کے شکرگزار ہیں‘‘۔
بدھ کی شام گئے نشریاتی ذرائع ابلاغ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے، عمران خان نے کہا کہ اگر حکومت آئی ایم ایف سے زیادہ قرضہ لیتی، ’’تو وہ ہم پر اضافی شرائط عائد کرتے، جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ جاتی جو معاملہ عوام کے لیے ناقابل برداشت ہو جاتا‘‘۔
اِس ضمن میں، وزیر اعظم نے کہا ’’ہم چند ہی روز میں دو دوست ملکوں سے جاری بات چیت سے متعلق مزید خوشخبری عوام کو سنائیں گے‘‘۔
عمران خان نے کہا کہ 1971ء میں ملک کا مجموعی قرضہ 30 ارب روپے تھا، جب کہ پچھلی حکومت کے اقتدار چھوڑتے وقت قومی قرضہ 30 ہزار ارب روپے ہوچکا تھا، جس میں 1200 ارب روپے کا پنجاب پر قرضہ بھی شامل ہے، جب کہ پی آئی اے، ریلوے اور اسٹیل مل پر لیا گیا قرضہ اس کے علاوہ ہے۔
اُنھوں نے الزام لگایا کہ ’’گذشتہ حکومت ’ورکرز ویلفئر فنڈ‘ تک کی رقوم بھی کھا گئی ہے‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اُن کی حکومت ’’بدعنوانی‘‘ اور منی ’لانڈرنگ‘ کے خلاف کڑا احتساب کرے گی، اور ’’کان کھول کر سن لو، کسی کو ’این آر او‘ نہیں ملے گا‘‘۔
یمن کے معاملے پر، عمران خان نے کہا کہ پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ یمن کے معاملے پر دوست ملکوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا جائے۔
اُنھوں نے اعلان کیا کہ اُن کی حکومت اس ضمن میں پوری کوشش کرے گی کہ اس لڑائی میں ثالث کا کردار ادا کرے، ’’جس سے ہمارے دوست مسلمان ملکوں کے درمیان جھڑپیں رکیں اور تباہی بند ہو‘‘۔
منی لانڈرنگ کے حوالے سے اُنھوں نے کہا کہ ’’جوں جوں ہم رشوت خوروں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں، جمہوریت کا لبادہ اوڑے ہوئے یہ عناصر شور مچا رہے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’حکومت سخت اقدام لینے میں پُرعزم ہے‘‘، اور یہ کہ ’’کسی کو نہیں بخشا جائے گا‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’جو چاہیں کر لیں، کسی کرپٹ کو نہیں چھڑیں گے، سب کا احتساب ہوگا‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ’’بدعنوان عناصر منی لانڈرنگ کے ذریعےلوٹی ہوئی قومی دولت بیرون ملک لے جاتے رہے ہیں۔ جب ہم کسی کرپٹ لیڈر کو برداشت کرتے ہیں تو دراصل ہم عوام پر قرضوں کا بوجھ بڑھاتے ہیں، جس کی گنجائش ہرگز نہیں ہونی چاہیئے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’بہت جلد غیر ملکی سرمایہ کاری بڑھے گی اور غریبوں کی مدد کے لیے قومی پیکیج کا اعلان کیا جائے گا‘‘۔
بقول اُن کے ’’ہم اپنے برآمد کنندگان کی مدد کریں گے۔ ساتھ ہی غیر ملکی سرمایہ کاری کو بڑھاوا دے رہے ہیں، جب کہ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات کو فروغ دینے کے لیے اقدامات جاری ہیں‘‘۔
اُنھوں نے بتایا کہ سعودی عرب ملک میں کام کرنے والے پاکستانیوں کی ویزا فیس میں کمی پر رضامند ہوگیا ہے۔
ساتھ ہی وزیر اعظم نے کہا کہ 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا اُن کی حکومت کا منصوبہ ہر صورت مکمل کیا جائے گا، جس کے نتیجے میں 40 ملکی صنعتیں، جن میں تعمیرات کا شعبہ سرفہرست ہے، فروغ پائے گا، جس سے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔
وزیر اعظم نے جمہوریت کا نام لینے والے مبینہ بدعنوان عناصر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’حکومت بدعنوانی کے خلاف بات کرتی ہے تو یہ لوگ چلانے لگتے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ سیاستدان اگر اسمبلی میں اسمبلی کے باہر، یا ڈی چوک پر آواز اٹھانا چاہتے ہیں یا دھرنا دینا چاہتے ہیں تو حکومت اُنھیں سہولت فراہم کرے گی‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’بدعنوانی کینسر کی صورت اختیار کر چکی ہے، جس کا عمل جراحی لازم ہوگیا ہے‘‘۔ بقول اُن کے ’’پاکستان کو کرپشن کے کینسر سے ہر صورت باہر نکالیں گے‘‘۔
یاد رہے کہ سعودی عرب پاکستان کو اس کی غیرملکی ادائیگیوں کے بحران سے نکلنے میں مدد کے لیے 3 ارب ڈالر فراہم کرنے پر تیار ہو گیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سعودی حکومت اسلام آباد کو ایک سال کی موخر ادائیگی کی بنیاد پر تیل فراہم کرنے پر بھی متفق ہو گیا ہے جو تین ارب ڈالر تک کی اضافی مدد ہے۔ یہ بندوبست تین سال کی مدد کے لیے ہو گا۔
دونوں ملکوں کے درمیان اس معاہدے پر دستخط وزیر اعظم عمران خان کے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر ہوئے۔ عمران خان وہاں سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے ہیں۔ پریس ریلیز کے مطابق سعودی عرب توازن ادائیگی میں مدد کے لیے ایک سال کے لیے تین ارب ڈالر کا ڈپازٹ فراہم کرے گا۔ اس سلسلے میں مفاہمت کی یاداشت پر پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر اور ان کے سعودی ہم منصب محمد عبداللہ جدعان نے دستخط کیے۔
پریس رلیز کے مطابق، سعودی عرب نے پاکستان میں ایک آئل ریفائنری قائم کرنے پر بھی اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے اور معدنیات کے وسائل کی ترقی میں حصہ لینے کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں معاہدہ بلوچستان کی حکومت کی مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔