ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے مالیات کے وزرا اور مرکزی بینکوں کے اعلیٰ اہل کار، عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لیے واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ یہ اجلاس ہفتے کے روز سے شروع ہو رہا ہے۔
واشنگٹن میں ہونے والے اِس اجلاس کا انعقاد،عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے توسط سے ہورہا ہے، جِس میں صنعتی اقوام اور 20ترقی یافتہ ممالک کا گروپ شرکت کررہے ہیں، جِس میں دنیا کے امیر اور فروغ پاتے ہوئے صنعتی ممالک شامل ہیں۔
اِن اجلاسوں میں شرکت کرنے والے وزرا ، عالمی اقتصادیات میں توازن لانے کی حکمتِ عملی پر بات چیت کریں گے۔
بحالی کے عمل کے حوالے سے، رواں دواں اور ترقی یافتہ معیشتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کے مسائل کی بنا پر ، توازن کا حصول ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے۔ برازیل، چین اور بھارت معاشی کساد بازاری سے بخوبی باہر آچکے ہیں، لیکن اُن کے یورپی، امریکی اور جاپانی ہم عصر اتنی بہتر کارکردگی نہیں دکھا پائے۔
توقع ہے کہ زیرِ بحث آنے والے دوسرے موضوعات میں، زرِ مبادلہ کی قدر، خصوصاً چینی کرنسی کی قدر کا معاملہ، پیش پیش ہوگا۔
گذشتہ چند روز سے بھارت اور برازیل اُن ممالک میں شامل ہیں جنِھوں نےچین کی طرف سے یُئان کے سکے کی قدر میں کمی لانے کے لیے اپنی آواز بلند کی ہے۔
عالمی بینک کے صدر، رابرٹ زوئلک نے زور دیا ہے کہ اصلاح کے عمل کے حصول کےلیے تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اُنھوں نے کہا کہ اُن کا ادارہ ایسے طریقے وضع کرنے کے لیے کوشاں ہے جو تیزی سے اور مؤ ثر طور پر غیر متوقع مسائل سے ہم کنار ہونے میں معاون ثابت ہوں۔
زوئلک کے بقول، کس کو خبر تھی کہ آئیس لینڈ میں آتش فشاں پھٹنے سے ہوائی جہازوں کی صنعت خلل کا شکار ہوگی؟ کون سوچ سکتا تھا کہ یورپ کو مال نہ پہنچنے کی صورت میں کینیا، یوگینڈا، ایتھیوپیا اور سنیگال جیسے ممالک کو نقصان پہنچے گا، جِن کی نازک برآمدات تیزی سے گِرپڑیں گی۔
زوئلک نے کہا کہ اُنھیں امید ہے کہ اتوار تک ایک معاہدہ طے پا جائے گا، جِس کی بنا پر اُن کے ادارے کو غیر معمولی طور پر پانچ ارب ڈالر کے سرمائے کا اضافی زر میسر آجائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1