عالمی ادارہ محنت ’آئی ایل او‘ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں جبری مشقت اور تجارتی بنیادوں پر جنسی اور معاشی استحصال کی ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کا حجم 150 ارب ڈالر سالانہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس رقم کا تقریباً دو تہائی حصہ تجارتی بنیاد پر جنسی استحصال سے حاصل ہوتا ہے جب کہ ایک تہائی منافع جبری اقتصادی استحصال جس میں گھریلو ملازمت، زراعت، صنعتکاری، تعمیر، کان کنی جیسے شعبے شامل ہیں، سے کمایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری آمادگی سے بھی جبری مشقت جاری ہے لیکن یہ رپورٹ نجی شعبے سے متعلق ہے۔
غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے آئی ایل او کے پروگرام کی سربراہ بیاتے آندریس نے کہا کہ یہ غیر قانونی تجارت ایشیا بحرالاکاہل کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ وہاں غیر قانونی تجارت کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا سب سے زیادہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اندازے کے مطابق دوسرے نمبر پر ترقی یافتہ معیشتیں آتی ہیں۔ ان میں یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں کیونکہ ان ممالک میں کام کی زیادہ اجرت ملتی ہے۔ استحصال کا شکار فی کس کمایا جانے والا منافع ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک آتے ہیں اور سب سے کم منافع ایشیا بحرلاکاہل کے ممالک اور افریقی ممالک میں ہے۔"
رپورٹ کے مطابق اندازاً دو کروڑ دس لاکھ مرد و خواتین اور بچے جبری مشقت کا شکار ہیں جن میں شامل 55 لاکھ بچوں میں سے 22 لاکھ اس جبری مشقت کا شکار ہیں جس کو سرکاری سر پرستی حاصل ہے۔
رپورٹ کی تحقیق کے مطابق جبری مشقت کا شکار افراد میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جو تجارتی بنیادوں پر جنسی استحصال اور گھریلو مشقت کا نشانہ بنتے ہیں۔ جبکہ مرد اور لڑکے زراعت، تعمیراتی کام اور کان کنی میں جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
آندریس نے کہا کہ اکثر خاندان انتہائی غریب ہیں اور محدود آمدنی سے پیدا ہونے والی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ان کو قرض لینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جبری مشقت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور اکثر اوقات پورے خاندان کو جبری مشقت کرنا پڑتی ہے۔
آئی ایل او کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق جبری مشقت کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی ہوتی ہے جن میں تعلیم کی کمی، ناخواندگی اور جنس اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنا بھی شامل ہے۔
آئی ایل او کے سروے کا یہ آزمائشی پروگرام آٹھ ملکوں میں کیا گیا جس میں وہ جبری مشقت دیکھی گئی جو روایتی ہے اس میں غلامی کی طرح اور قرض کی وجہ سے جبری مشقت کی مثالیں ملتی ہے اور یہ نیپال، نائیجر اور گوٹےمالا میں عام ہے۔
اس کے علاوہ یہ سروے بولویا، آئیوری کوسٹ، آرمینیا، مالڈوا اور جارجیا کے بارے میں بھی ہے جہاں غلامی جدید شکل میں موجود ہے۔
آئی ایل او نادار افراد کے لیے سماجی تحفظ کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ تعلیم میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تربیت اور تارکین وطن کارکنوں کے لیے زیادہ حقوق دینے کا بھی مطالبی کرتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس رقم کا تقریباً دو تہائی حصہ تجارتی بنیاد پر جنسی استحصال سے حاصل ہوتا ہے جب کہ ایک تہائی منافع جبری اقتصادی استحصال جس میں گھریلو ملازمت، زراعت، صنعتکاری، تعمیر، کان کنی جیسے شعبے شامل ہیں، سے کمایا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری آمادگی سے بھی جبری مشقت جاری ہے لیکن یہ رپورٹ نجی شعبے سے متعلق ہے۔
غیر قانونی تجارت کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے آئی ایل او کے پروگرام کی سربراہ بیاتے آندریس نے کہا کہ یہ غیر قانونی تجارت ایشیا بحرالاکاہل کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ وہاں غیر قانونی تجارت کا شکار ہونے والوں کی تعداد کا سب سے زیادہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اندازے کے مطابق دوسرے نمبر پر ترقی یافتہ معیشتیں آتی ہیں۔ ان میں یورپی یونین کے ممالک شامل ہیں کیونکہ ان ممالک میں کام کی زیادہ اجرت ملتی ہے۔ استحصال کا شکار فی کس کمایا جانے والا منافع ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ ہوتا ہے اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک آتے ہیں اور سب سے کم منافع ایشیا بحرلاکاہل کے ممالک اور افریقی ممالک میں ہے۔"
رپورٹ کے مطابق اندازاً دو کروڑ دس لاکھ مرد و خواتین اور بچے جبری مشقت کا شکار ہیں جن میں شامل 55 لاکھ بچوں میں سے 22 لاکھ اس جبری مشقت کا شکار ہیں جس کو سرکاری سر پرستی حاصل ہے۔
رپورٹ کی تحقیق کے مطابق جبری مشقت کا شکار افراد میں نصف تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جو تجارتی بنیادوں پر جنسی استحصال اور گھریلو مشقت کا نشانہ بنتے ہیں۔ جبکہ مرد اور لڑکے زراعت، تعمیراتی کام اور کان کنی میں جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔
آندریس نے کہا کہ اکثر خاندان انتہائی غریب ہیں اور محدود آمدنی سے پیدا ہونے والی مشکلات پر قابو پانے کے لیے ان کو قرض لینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کے جبری مشقت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں اور اکثر اوقات پورے خاندان کو جبری مشقت کرنا پڑتی ہے۔
آئی ایل او کی اس تازہ رپورٹ کے مطابق جبری مشقت کئی اور وجوہات کی بنا پر بھی ہوتی ہے جن میں تعلیم کی کمی، ناخواندگی اور جنس اور ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنا بھی شامل ہے۔
آئی ایل او کے سروے کا یہ آزمائشی پروگرام آٹھ ملکوں میں کیا گیا جس میں وہ جبری مشقت دیکھی گئی جو روایتی ہے اس میں غلامی کی طرح اور قرض کی وجہ سے جبری مشقت کی مثالیں ملتی ہے اور یہ نیپال، نائیجر اور گوٹےمالا میں عام ہے۔
اس کے علاوہ یہ سروے بولویا، آئیوری کوسٹ، آرمینیا، مالڈوا اور جارجیا کے بارے میں بھی ہے جہاں غلامی جدید شکل میں موجود ہے۔
آئی ایل او نادار افراد کے لیے سماجی تحفظ کی ضرورت پر زور دینے کے ساتھ تعلیم میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ تربیت اور تارکین وطن کارکنوں کے لیے زیادہ حقوق دینے کا بھی مطالبی کرتی ہے۔