رسائی کے لنکس

کلبھوشن اور بھارت کو وکیل کرنے کی دوبارہ پیشکش کی جائے: عدالت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومتِ پاکستان کو مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن جادھو کے کیس میں جادھو اور بھارت کو ایک بار پھر وکیل کرنے کی پیشکش کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے حکومتِ پاکستان کو کلبھوشن کو تیسری بار قونصلر رسائی دینے کے لیے بھارتی حکومت سے رابطہ کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔

تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے کیس سے متعلق دستاویزات کی عدم فراہمی کے باعث نظرِ ثانی اپیل دائر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو کلبھوشن جادھو کے لیے وکیل مقرر کرنے کے معاملے پر وفاقی حکومت کی درخواست کی سماعت کی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔ وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کے لیے آرڈیننس کیوں جاری کیا گیا؟

خیال رہے کہ 20 مئی 2020 کو پاکستان میں ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا تھا جس کے تحت کلبھوشن جادھو کو 60 روز کے اندر اپنی سزا کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے جاسوسی، دہشت گردی اور تخریب کاری کے الزامات پر اپریل 2017 میں کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔

پاکستانی حکام کے مطابق کلبھوشن نے اپنی سزا کے خلاف نظرِ ثانی اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

پاکستان کی وزارتِ قانون کے مطابق کلبھوشن کے انکار پر فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے آرڈیننس کے تحت حکومت نے خود ہی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

وزارتِ قانون نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ ایک وکیل مقرر کرے جو عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے مطابق کلبھوشن کو فوجی عدالت سے سنائی جانے والی سزا کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی اور فیصلے پر دوبارہ غور کرنے کی درخواست کی پیروی کرے۔

پیر کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کلبھوشن کے معاملے پر ‎8 مئی 2017 کو بھارت نے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا۔ بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کرنے اور کلبھوشن تک قونصلر رسائی نہ دینے الزام لگایا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ کلبھوشن کو سزائے موت کے خلاف نظرِ ثانی اپیل کا پورا حق دیا لیکن کلبھوشن اور بھارت نے وکیل کی سہولت لینے سے انکار کیا ہے۔ عالمی عدالت کی ہدایت پر کلبھوشن کو دو مرتبہ قونصلر رسائی بھی دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف نے کلبھوشن کی سزائے موت پر حکمِ امتناع جاری کیا تھا جو آج بھی برقرار ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرڈیننس جاری کر کے سزا کے خلاف نظرِ ثانی درخواست دائر کرنے کا موقع دیا گیا۔

اٹارنی جنرل کے بقول کلبھوشن کی آرمی چیف کے سامنے رحم کی اپیل عالمی عدالت میں کیس جانے کے باعث تاحال زیرِ التوا ہے۔ حالیہ آرڈیننس انٹرنیشنل کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے جاری کیا گیا۔

پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت 2016 میں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

پاکستان کا دعویٰ رہا ہے کہ کلھبوشن بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسر ہیں اور ان کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ سے ہے۔ لیکن بھارت اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ کلبھوشن بحریہ کے ریٹائرڈ افسر ہیں جن کا ’را‘ سے کوئی تعلق نہیں۔

سماعت کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں صرف پاکستانی وکیل ہی عدالت کے سامنے پیش ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے اس حوالے سے ایک بار پھر بھارت اور کلبھوشن جادھو کو وکیل کرنے کی پیشکش کرنے کا کہا ہے جس پر ہم دوبارہ پیشکش کرنے کو تیار ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگر کوئی قیدی اپنے لیے وکیل نہ کر سکے تو عدالت اسے اس کے حقوق کے تحفظ کے لیے وکیل مہیا کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارت نے یہ تاثر دیا کہ کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی نہیں دی گئی جو کہ ان کے بقول غلط ہے۔

بین الاقوامی قانون کے ماہر احمر بلال صوفی کہتے ہیں کہ عالمی عدالت کے فیصلہ کو ماننا پاکستان کے لیے لازم ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے احمر بلال صوفی نے کہا کہ عالمی عدالتِ انصاف کے فیصلے کے مطابق فیئر ٹرائل کا حق دینے کے لیے ضروری تھا کہ کلبھوشن جادھو خود یا بھارتی حکومت اس کیس میں وکیل کرے لیکن اب تک وہ اس حق کا استعمال نہیں کر رہے۔

ان کے بقول پاکستان نے اس معاملے میں خصوصی آرڈیننس بھی جاری کیا ہے لیکن اب بھی معاملہ تعطل کا شکار ہے۔

بھارت کا کہنا ہے کہ کلبھوشن کے کیس سے متعلق دستاویزات فراہم نہ کرنا، آزادانہ قونصلر رسائی نہ دینا اور وکیل مقرر کرانے کے لیے عدالت سے رابطہ کرنا پاکستان حکومت کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔

کلبھوشن کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اگلی سماعت 3 ستمبر کو ہوگی۔

XS
SM
MD
LG