رسائی کے لنکس

'نائن الیون کے بعد پکڑے گئے 93 فی صد مسلمان بے قصور نکلے'


امریکی مسلمان نیویارک کی ایک شاہراہ پر نمازِ مغرب ادا کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
امریکی مسلمان نیویارک کی ایک شاہراہ پر نمازِ مغرب ادا کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

سانحہ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے شبہے میں امریکہ میں گرفتار 93 فی صد مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ یہ بات امریکی مسلمانوں کی تنظیم ’اکنا‘ کی ’کونسل فار سوشل جسٹس‘ کے وکلا کی ٹیم کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔

ساتھ ہی، دہشت گرد کارروائیوں کی روک تھام کے لئے ایک قانونی مسودہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کی امریکی کانگریس سے منظوری کے لیے مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

’اکنا کونسل فار سوشل جسٹس‘، واشنگٹن میں قائم مسلمانوں کا ایک تحقیقی ادرہ ہے، جو سماجی انصاف کے نظام کے لئے بین المذاہب تنظیموں کے ساتھ مل کر سفارشات مرتب کرکے اراکین کانگریس کو روانہ کرتا ہے؛ اور قانون سازی میں کانگریس کی معاونت کرتا ہے۔

کونسل سے وابستہ محققین کا کہنا ہے کہ وہ خصوصی طور پر پسے ہوئے اور نظرانداز ہونے والی کمیونٹی کی بحالی کے لئے تحقیق کر رہے ہیں اور اپنی سفارشات اراکین کانگریس اور میڈیا کو فراہم کرتے ہیں۔

ان کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق، نائین الیون کے بعد بظاہر دہشت گردی کے شبے میں گرفتار سیکڑوں قیدیوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور نتائج سے اراکین کانگریس کو آگاہ کیا جا رہا ہے، تاکہ ایسی قانون سازی ہو سکے جس کے تحت معاشرے کے کسی بھی طبقے کے خلاف معاندانہ کارروائی کا تدارک ہو۔

’اکنا کونسل فار سوشل جسٹس‘ کے سالانہ فنڈ ریزینگ ڈنر میں گزشتہ دنوں کونسل کے سربراہ ڈاکٹر زاہد بخاری کے بقول، ’’ایک آرگنائزیشن ہے کولیشن فار سول فریڈم، وہ خاص طور پر کام کر رہی ہے ان مسلمانوں پر جنھیں گیارہ ستمبر کے بعد دہشت گردی کے الزام میں جیل میں ڈالا گیا ہے۔ چھ سو سے زیادہ کیسز ہیں۔ کولیشن کی مدد سے ہم نے ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ دو قانون دانوں نے ایک ایک کیس کا تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ دہشت گردی کے الزام میں گرفتار 93 فیصد لوگ رہا ہو چکے ہیں‘‘۔

ڈاکٹر زاہد بخاری کہتے ہیں کہ غربت، بھوک اور افلاس کی جڑ سماجی عدل سے انحراف ہے۔ معاشرے میں سماجی انصاف قائم کیے بغیر یہ مسائل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے، ان کا ادارہ گزشتہ ایک دہائی سے ضرورتمندوں کی مدد کے ساتھ سماجی انصاف کے لئے بھی کام کر رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’’پریزن سسٹم پورے کا پورا ظلم پر مبنی ہے۔ یہاں پر غربت ہے۔ یہاں پر تقریباً 41 ملین لوگ روزانہ بھوکے سوتے ہیں، جبکہ یہ دنیا کا امیر ترین ملک ہے۔ تو ہم ان ایشوز پر سب کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

’سوشل جسٹس سیوک انگیجمنٹ‘ کے نائب صدر، امام عبد الفتح کہتے ہیں کہ سماجی انصاف نہ صرف کسی فرد بلکہ پورے امریکی معاشرے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔

امام عبدالفتح کے بقول، ’’وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا ایمان ہے کہ یہ ایک الہامی حکم کا درجہ رکھتا ہے کہ ہمیں انصاف کے لیے مضبوطی سےکھڑا رہنا ہے۔ چاہے وہ کسی کے خلاف ہو۔ ہمیں اس کام کو ایک منظم اور باقاعدہ طور پر کرنا ہے۔ یہی معاشرے میں بامعنی تبدیلی کا موجب بنے گا۔ یہ ہماری زندگی کا بنیادی مقصد بھی ہے۔ یہاں امریکہ میں یہ بہت ضروری کام ہے۔‘‘

تنظیم کے سالانہ فنڈ ریزنگ میں لوگوں نے ڈیڑھ لاکھ سے زائد کے عطیات جمع کرائے۔ منتظیمن کے مطابق، ان عطیات کی مدد سے ملک بھر میں سماجی انصاف کے مختلف پروجیکٹس پر کام کی رفتار کو تیز کیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG