رسائی کے لنکس

کلبھوشن یادو کیس کا فیصلہ 17 جولائی کو سنایا جائے گا


کلبھوشن یادو۔ فائل فوٹو
کلبھوشن یادو۔ فائل فوٹو

عالمی عدالت انصاف پاکستان میں گرفتار مبینہ بھارتی جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادو کے کیس کا فیصلہ رواں ماہ کی 17 تاریخ کو سنائے گی۔

عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادو کیس کی سماعت 18 فروری سے 21 فروری تک جاری رہی تھی۔ 18 فروری کو بھارت نے کلبھوشن کیس پر دلائل کا آغاز کیا اور 19 فروری کو پاکستان نے اپنے دلائل پیش کیے۔

20 فروری کو بھارتی وکلا نے پاکستانی دلائل پر بحث کی اور 21 فروری کو پاکستانی وکلا نے بھارتی وکلا کے دلائل پر جواب دیے جبکہ سماعت مکمل ہونے کے بعد عالمی عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

کلبھوشن کیس کا فیصلہ 17 جولائی کو سنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ عالمی عدالت انصاف کے صدر اور جج عبدالقوی احمد یوسف سنائیں گے۔

بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے مبینہ جاسوس کلبھوشن یادو کو مارچ 2016 میں بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ پاکستان کے مطابق بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر نے پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کا اعتراف کیا تھا جس پر فوجی عدالت نے کلبھوشن کو سزائے موت سنائی تھی۔

پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان، وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل اور کوئنز کاؤنسل خاور قریشی عالمی عدالت انصاف میں سماعت کے دوران (فائل فوٹو)
پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان، وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل اور کوئنز کاؤنسل خاور قریشی عالمی عدالت انصاف میں سماعت کے دوران (فائل فوٹو)

پاکستان کے بیان کے مطابق کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی اور دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث تھا۔ بھارتی کمانڈر کلبھوشن یادو کو تین مارچ 2016 کو ماشخیل بلوچستان کے علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بھارت نے نو مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت 10 اپریل کو کلبھوشن یادو کو پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کا ٹرائل کیا گیا۔ بھارت نے نو مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔

کمانڈر کلبھوشن کے پاس حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ موجود تھا جس کے اصل ہونے کی برطانیہ کا فرانزک ادارہ تصدیق کر چکا ہے۔ کلبھوشن یادو نے حسین مبارک پٹیل کے نام سے اس پاسپورٹ پر 17 بار دہلی کا فضائی سفر کیا۔

عالمی عدالت انصاف میں بھارت کا مؤقف

بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن جادو کو سفارتی رسائی دیے جانے کی استدعا کر رکھی ہے۔ بھارت کا یہ مؤقف ہے کہ کلبھوشن یادو پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل کلبھوشن یادو کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔ اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن یادو کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ بھارت نے کلبھوشن یادو کا مقدمہ فوجی عدالت پر چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا۔ بھارت کی جانب سے اب تک نو مرتبہ سفارتی رسائی کی درخواست کی گئی ہے۔

پاکستان کا مؤقف

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کے وکیل خاور قریشی نے کہا کہ بھارت ویانا کنونشن کے معاہدوں کے تحت سفارتی رسائی کی بات کرتا ہے تو کسی دوسرے ملک میں جاسوس بھیجنا بھی ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ ویانا کنونشن کے مطابق کسی بھی ملک میں جاسوسی کرنے والے اور ملکی سیکورٹی کے لیے خطرہ بننے والے کو سفارتی رسائی نہیں دی جاتی۔

بھارت کلبھوشن یادو کی شہریت ہی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ کلبھوشن یادو کے پاس پاسپورٹ حسین مبارک پٹیل کے نام سے ہے جبکہ سروس کارڈ بھارتی بحریہ کے حاضر سروس افسرکا ہے۔ کلبھوشن یادو کے پاس اپیل اور نظر ثانی کا حق موجود ہے۔ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادو کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات مانگی گئیں جو کہ بھارت دینے میں ناکام رہا۔ کلبھوشن یادو کا اعترافی بیان بغیر کسی دباؤ کے ہے۔ اس لیے کلبھوشن یادو کی بریت، رہائی اور واپسی کا بھارتی مطالبہ مضحکہ خیز ہے۔ پاکستانی وکیل نے عدالت میں دستاویزات، خطوط اور میڈیکل رپورٹس پیش کیں۔

عدالت انصاف میں پاکستانی ایڈہاک جج

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جانب سے مقرر ایڈہاک جج تصدق حسین جیلانی سماعت کے پہلے ہی روز علیل ہو گئے تھے۔ جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی عدالت آئے لیکن طبع خرابی کے باعث انہیں ہیگ کے ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا۔ منگل کو پاکستان نے دلائل سے قبل جسٹس تصدق حسین کی پھیپھڑوں میں انفیکشن کی بیماری اور عدالت نہ آ سکنے کی وجوہات کی بنا پر ایڈہاک جج تبدیل کرنے کی درخواست دائر کر دی ہے کیونکہ عالمی عدالت انصاف میں بھارت کے مستقل جج دلویر بھنڈاری بینچ کا حصہ ہیں۔ عالمی عدالت انصاف نے پاکستانی ایڈہاک جج تبدیل کرنے کی درخواست پر فیصلہ مخفوظ کر لیا۔

XS
SM
MD
LG