کچھ عرصے سے ہائبرڈ گاڑیوں کا بہت چرچا ہے۔ یہ گاڑیاں بجلی کی مدد سے چلتی ہیں اور ایک لیٹر ایندھن پر20 کلومیٹر تک فاصلہ طے کرتی ہیں ۔
تاہم، اب انجینئر بجلی کی مدد سے چلنے والے ہوائی جہازوں پر بھی تجربے کر رہے ہیں جو ایک لیٹر میں 85 کلومیٹر تک پرواز کر سکتے ہیں۔ حال ہی میں اِس ضمن میں 2011ء ’گرین فلائیٹ چیلنج ‘مقابلہ ہوا جِس میں جیتنے والی ٹیم نے تیرا لاکھ پچاس ہزار ڈالرز کا انعام حاصل کیا۔
کیلی فورنیا میں حال ہی میں ایک مقابلے کے دوران ایک تجرباتی طیارے نے بھی پرواز کی۔ اِس مقابلے میں ایندھن کی بہتر کارکردگی کا جائزہ ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اِس تقریب کا اہتمام کرنے والی
The Computer Aircraft Efficiency Foundation نے مقابلے کے لیے ایسے طیاروں کو چنا جو دو گھنٹوں سے کم وقت میں322 کلومیٹر تک پرواز کر سکتے ہوں اور اِس کے لیے تین اعشارہ پچھتر لیٹر سے بھی کم ایندھن یا اتنی ہی مقدار میں بجلی کا استعمال کیا جائے ۔ مقابلے میں 13ٹیموں نے اندراج کرایا، مگر ججوں نے صرف تین ٹیموں کو مقابلے میں شامل ہونے کی اجازت دی۔
ناسا کے قائم مقام چیف ٹیکنالوجی آفسر, جوزف پیرش کا کہنا ہے کہ یہ نئے طیارے روایتی ہوائی جہازوں کے مقابلے میں پانچ سے دس گنا زیادہ صلاحیت کے حامل ہیں۔وہ کہتے ہیں گرین فلائیٹ چیلنج مقابلے کو ائیر کرافٹ کے موجودہ ڈیزائین کے ساتھ جیتنا ممکن نہیں تھا ۔ اس مقابلے کو جیتنے کے لیے جدت کی ضرورت تھی ۔ اس کی ہلکی بیٹریوں ، زیادہ پختہ اور طاقت ور الیکٹرک موٹرز اور ہلکے ڈھانچے کی وجہ سے خلائی اور فضائی کمیونٹی کو بہت فائدہ پہنچے گا۔
پینسلوینیہ کی ٹیم پائیپسٹرل یو ایس اے ڈاٹ کام نے اس مقابلے میں بجلی کی طاقت والے ائیرکرافٹ جی فور کے لیے گرینڈ پرائز جیتا۔انعام کی رقم تیرا لاکھ پچہتر ملین ڈالز تھی ۔ اس جہاز نے ایک لیٹر ایندھن میں 171 کلو میٹر کے برابر پرواز کو یقینی بنایا۔ جیک لینگلین نے جیتنے والی ٹیم کے قیادت کی ۔ انہوں نے کہا کہ اکٹھے ہم سب نے مل کر یہ ثابت کر دیا کہ بجلی ان طیاروں کو دیرپا بنیادوں پر بہترین انداز میں تونائی بھی فراہم کرتی ہے۔
جب یہ ہوائی جہاز ہمارے سروں پر دو ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں تو ہمیں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی جو پرواز کے دوران دھواں بھی خارج نہیں کرتے ۔بیٹریوں کو ریچارج کر نے کے توانائی جیوتھرمل پلانٹ سے حاصل کی جاتی ہے۔کیفے گرین فلائیٹ چیلنج کوگوگل نے سپانسر کیا تھا اور انعام کی رقم ناسا نے دی تھی۔ امریکی خلائی ادارے کا کہنا ہے کہ مقابلے میں حصہ لینے والی ٹیموں نے اِس ایوارڈ کے لیے نو ملین سے زیادہ رقم خرچ کی تھی۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: