ہنگری کے وزیراعظم وکٹر اوبرون کے اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک میں آنے والے پناہ گزین اور تارکین وطن یورپ کی مسیحی اقدار کے لیے ممکنہ خطرہ ہیں۔
پناہ گزینوں کی اکثریت افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے جنگ اور غربت سے فرار ہونے والے مسلمانوں کی ہے۔ اس بیان سے ہنگری کی مسلم برادری میں تشویش پیدا ہوئی ہے۔
روزانہ تقریباً پانچ ہزار افراد ہنگری عبور کر کے آسٹریا پہنچتے ہیں۔
آسٹریا میں برگن لینڈ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ایک ترجمان جیرالڈ پنگل نے کہا کہ ’’ان میں سے اکثر تھکن سے چور ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ تھکے ہوئے ہیں۔ مگر بہت سے لوگ آسٹریا پہنچنے پر خوش بھی ہیں کہ وہ سرحد عبور کر کے آسٹریا پہنچ گئے ہیں۔‘‘
ہنگری ان سے اتنا خوش نہیں ہے اور اس نے یورپی یونین کی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے سربیا اور کروئیشیا کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگا کر پناہ گزینوں کی لہر کو روکنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
ہنگری کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ یورپ کی مسیحی اقدار خطرے میں ہیں۔ اس جذبے کا اظہار داخلی سیاست کے لیے اچھا ہے مگر ہر کوئی اس سے خوش نہیں۔
ہنگری میں مسلمانوں کی تنظیم کے صدر سلطان سلوک نے کہا کہ ’’میں ہنگری کا مقامی شہری ہوں، اور میرے لیے ایسے بیانات سننا اچھا نہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ سیاستدان ایسا سنجیدگی سے نہیں کہہ رہے کیونکہ اس سے معاشرے کی ساخت یا امن پر اثر ہو سکتا ہے۔‘‘
اسلام اور تارکین وطن کے بارے میں خدشات کو ہوا دینے سے سیاسی حمایت میں اضافہ ہو سکتا ہے مگر اس سے عدم رواداری کا تاثر بھی ملتا ہے۔ بوڈاپسٹ میں رہنے والے لوکاچی جینو نے کہا کہ ہنگری کے رہنما اس مسئلے سے خاموشی سے بھی نمٹ سکتے ہیں۔
’’اس مسئلے سے زیادہ پرسکون، زیادہ خاموش طریقے سے بھی نمٹا جا سکتا ہے جیسا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کروئیشیا اور رومانیہ کر رہے ہیں۔‘‘
دو صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہنے کے باوجود مسیحی اکثریت والے ملک ہنگری میں 50,000 سے بھی کم مسلمان ہیں۔
مگر مسلمان پناہ گزینوں کو ہنگری کی عدم برداشت باہر نہیں دھکیل رہی بلکہ یورپ کے دوسرے ملکوں کی خوشحالی اپنی طرف کھیچ رہی ہے۔
حالیہ بیان بازی کے باوجود ہنگری کے مسلمان رہنما کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے اور وہ معاشرے کا حصہ ہیں۔