سعودی عرب کے شمالی علاقے سے ایک لاکھ 20 ہزار برس قبل کے ایسے آثار ملے ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انسانوں کا ایک چھوٹا سا گروہ ایک جھیل کے پاس پانی کے لیے رکا جہاں اونٹ، بھینسیں اور دیو قامت ہاتھی بھی اپنی پیاس بجھانے آتے تھے۔
محققین کے مطابق وہاں سے ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ اس گروہ نے جھیل کے قریب کسی بڑے جانور کا شکار کیا تھا۔ البتہ اس گروہ نے اس مقام پر زیادہ عرصے تک قیام نہیں کیا۔
اس قدیم آثار کے متعلق تفصیلات بدھ کو جریدے 'سائنس ایڈوانسز' میں شائع ہوئیں۔
'صحرائے النفود' میں انسانوں اور جانوروں کے قدیم آثار ملنے کے بعد محقیقن نے افریقہ سے دوسرے علاقوں کی جانب انسانی نقل مکانی کے راستوں پر تحقیق شروع کی۔
سعودی عرب کے جس علاقے میں یہ قدیم آثار دریافت ہوئی ہیں۔ اس زمانے میں یہ صحرا کی بجائے ایک سرسبز و شاداب خطہ تھا۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اس تحقیق کے مصنفین میں شامل رچرڈ کلارک ولسن نے، جن کا تعلق برطانیہ کی 'رائل ہالووے، یونیورسٹی سے ہے، بتایا ہے کہ زمانۂ قدیم میں جزیرہ نما عرب کے صحرا میں سبزہ زار، جھیلیں اور دریا بھی تھے۔
محققین کے مطابق آثار میں دریافت ہونے والے قدموں کے سینکڑوں نشانات میں سے سات کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ انسانوں کے ہی قدم ہیں۔ ان قدموں کے درمیان فاصلہ برابر ہے۔ جب کہ ان کی سمت بھی ایک جانب ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو یا تین افراد ایک ساتھ سفر کر رہے ہیں۔
اس تحقیق کے مصنفین میں شامل میتھیو اسٹیورٹ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں انسانوں کے زیرِ استعمال پتھر کے کسی اوزار کے نشان نہیں ملے۔ اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ افریقہ سے آنے والے انسانوں کے مختصر گروہ نے وہاں زیادہ دیر قیام نہیں کیا تھا۔
میتھیو اسٹیورٹ کے مطابق ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہ لوگ جب وہاں پانی لینے کے لیے آئے تھے، تو اس وقت وہاں جانور بھی موجود تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پہلے محققین کا خیال تھا کہ انسان افریقہ سے یوریشیا کے علاقوں میں یونان کے جنوب سے گزرتے ہوئے پہنچے تھے۔ مگر نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں جھیلوں یا دریاؤں کے ساتھ گزرنے والے راستے بہت اہمیت رکھتے تھے۔