رسائی کے لنکس

غزہ جنگ بندی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کا آغاز ہونا چاہیے: مصر


  • مصر کے السیسی کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ، وسیع تر تنازعہ شروع ہونے کی صورت میں سنگین نتائج کا انتباہ۔
  • مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیان میں یہ کہا ہے۔
  • غزہ میں جنگ بندی کو "فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی طور پر وسیع طور پر تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کا آغاز ہونا چاہیے۔ "السیسی۔
  • مصر میں صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات سے پہلے وزیرخارجہ بلنکن نے کہا تھاکہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق امریکی حمایت والے مجوزہ معاہدے کو قبول کر لیا ہے ۔
  • انہوں نے حماس پر زور دیاتھا کہ وہ بھی اس تجویز کو قبول کرے۔
  • حماس نے کہا ہے کہ اس کے ایک ثالث کی حیثیت سے،امریکہ پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ وہ امریکی مذاکرات کاروں پر اسرائیل کا ساتھ دینے کا الزام لگاتا ہے۔

مصر نے منگل کو غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بحیرہ روم کےساحل پر واقع غزہ کی تنگ پٹی میں لڑائی کو نہ روکا گیا تو یہ تنازع ایک وسیع علاقائی جنگ کی صورت میں پھیل سکتا ہے۔

مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے العالمین میں گرمائی صدارتی محل میں امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک بیان میں کہا، "وقت آگیا ہے کہ جاری جنگ کو ختم کیا جائے، اور دانشمندی سے کام لیا جائے ، اور امن اور سفارت کاری کے لہجے کو برقرار رکھا جائے۔"

مصر کے صدر اور امریکی وزیر خارجہ قاہرہ میں ایک ملاقات کے دوران، فائل فوٹو
مصر کے صدر اور امریکی وزیر خارجہ قاہرہ میں ایک ملاقات کے دوران، فائل فوٹو

انہوں نے کہا فریقوں کو "علاقائی سطح پر پھیلنے والے تنازعے کے خطرے" سے ہوشیار رہنا چاہیے کسی وسیع جنگ کے خطرے کا "تصور کرنا مشکل" ہو گا۔
مصری رہنما نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کو "فلسطینی ریاست کو بین الاقوامی طور پر وسیع طور پر تسلیم کرنے اور دو ریاستی حل کے نفاذ کا آغاز ہونا چاہیے، کیونکہ یہی خطے میں استحکام کا بنیادی ضامن ہے۔"

ساڑھے 10 ماہ کی لڑائی میں جنگ بندی کے لیے مہینوں سے تعطل کی شکار بات چیت کے دوران، امریکہ نے دو ریاستی حل کے لیے اپنی حمایت برقرار رکھی ہے جس میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسرائیل کی سلامتی کے لیے اسکی مخالفت جاری رکھی ہے۔

مصر، قطر اور امریکہ مل کر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے لیے مذاکرات پر زور دے چکے ہیں لیکن وہ معاہدہ مکمل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اسرائیلی یرغمالوں کے خاندانوں کا کسی معاہدہ کا مطالبہ

بیس اگست کو چھے اسرائیلی یرغمالوں کی لاشیں بازیاب ہوئی ہیں۔
بیس اگست کو چھے اسرائیلی یرغمالوں کی لاشیں بازیاب ہوئی ہیں۔

اسرائیل کی فوج نے منگل کے روز کہا ہےکہ اس نے فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک جھڑپ کے بعد غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس کی ایک سرنگ سے چھ اسرائیلی یرغمالوں کی لاشیں نکال لی ہیں۔

یرغمالوں اور لاپتہ خاندانوں کے لیے کام کرنے والے گروپ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لاشوں کی بازیابی سے ان خاندانوں کو قرار آ جائے گا جو ان کی واپسی اور تلاش کے لیے پریشان تھے۔ اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ وہ انہیں ہمیشہ کے لیے کھو چکے ہیں۔

اس گروپ نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یہ یقینی بنائے کہ بقیہ یرغمال مذاکرات کے ذریعے اسرائیل میں زندہ واپس آ سکیں۔

گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت ثالثوں کی مدد سے میز پر موجود معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے اپنی تمام توانائیاں صرف کرے۔

بلنکن کی اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقات

مصر میں صدر اور وزیر خارجہ سے ملاقات سے پہلے امریکی وزیرخارجہ انٹنی بلنکن نے کہا تھاکہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی سے متعلق امریکی حمایت والے مجوزہ معاہدے کو قبول کر لیا ہے ۔ انہوں نے حماس پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اس تجویز کو قبول کرے۔

بلنکن تل ابیب میں اسرائیل کے صدر ہرزوگ کے ساتھ۔فوٹو اے ایفپی 19 اگست 2024
بلنکن تل ابیب میں اسرائیل کے صدر ہرزوگ کے ساتھ۔فوٹو اے ایفپی 19 اگست 2024

امریکی وزیر خارجہ نے کہا، " وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ آج (پیر کو) بہت تعمیری ملاقات رہی۔ انہوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل اختلافات کم کرنے والی تجویز کی حمایت کرتا ہے۔ اگلا اہم قدم یہ ہے کہ حماس بھی ہاں میں جواب دے۔"

تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تجویز سے متعلق عسکریت پسند گروپ حماس کی شکایات کو دور کیا گیا ہے یا نہیں۔

بلنکن نے اس اعلان سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ڈھائی گھنٹے کی طویل ملاقات کی تھی۔ امریکہ، مصر اور قطر اسرائیل اور حماس کے درمیان مجوزہ امن معاہدے پر مہینوں سے مل کر کام کر رہے ہیں۔

بہر حال، بلنکن نے مزید کہا کہ اگر حماس تجویز کو قبول کر لیتا ہے، تو بھی مذاکرات کار آنے والے دنوں میں "معاہدے پر عمل درآمد کے حوالے سے کسی واضح مفاہمت" پر کام کریں گے۔ انہوں نے بغیر کسی وضاحت کے کہا کہ اب بھی "پیچیدہ مسائل" باقی ہیں جن کے لیے "رہنماؤں کے سخت فیصلوں" کی ضرورت ہے۔

امریکہ اور مصر کے وزرائے خارجہ کی العالمین میں بیس اگست 2024 کو ملاقات۔
امریکہ اور مصر کے وزرائے خارجہ کی العالمین میں بیس اگست 2024 کو ملاقات۔

حماس کا موقف

حماس نے کہا ہے کہ اس کا یک ثالث کی حیثیت سے،امریکہ پر اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ وہ امریکی مذاکرات کاروں پر اسرائیل کا ساتھ دینے کا الزام لگاتا ہے۔ جس نے ایسے نئے مطالبات کیے ہیں جنہیں عسکریت پسند گروپ مسترد کرتا ہے۔

بلنکن نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس تجویز میں غزہ کے اندر دو اسٹریٹجک راہداریوں پر کنٹرول کے لیے اسرائیل کے مطالبے پر توجہ دی گئی ہے، جس کیلئے حماس نے کہا ہے کہ یہ ایک نان اسٹارٹر ہے، یا ان دوسرے مسائل پر جنہوں نے طویل عرصے سے مذاکرات کو درہم برہم کر رکھا ہے۔

اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 7 اکتوبر کے حماس کے دہشت گرد حملے میں اسرائیل میں تقریباً 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، جب کہ 250 کے لگ بھگ افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

غزہ میں حماس کی قیادت میں کام کرنے والی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی گیارہ ماہ سے جاری جوابی کاروائیوں میں اب تک 40173 فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہلاک ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔

یہ رپورٹ اے پی، اے ایف پی اور رائٹرز کی اطلاعات پر مبنی ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG