انسانی حقوق کی ایک موقر بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پاکستانی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہاں افغان پناہ گزینوں کو پولیس اور انتظامیہ کی طرف سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کو روکے اور اس ضمن میں پناہ گزینوں سے متعلق بین الاقوامی اور مقامی قوانین کی پاسداری کو یقینی بنائے۔
بدھ کو اپنی ایک تازہ رپوٹ میں "ایچ آر ڈبلیو" کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر طالبان عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کے تناظر میں پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کو مختلف انداز میں ہراساں کیے جانے کا سلسلہ تیز ہو گیا اور ان لوگوں کو زبردستی ان کے ملک واپس جانے کے لیے بھی مقامی پولیس اور انتظامیہ مبینہ طور پر دباؤ ڈالتی آ رہی ہے۔
تاہم پاکستان میں افغان پناہ گزینوں سے متعلق ادارے کے چیف کمشنر عمران زیب نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تنظیم کی رپورٹ کو حقائق کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو درپیش حالات کے تناظر میں سکیورٹی ادارے پاکستانیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کرتے ہیں اور ایسے افغان باشندے جن کے پاس یہاں رہائش کا اجازت نامہ نہیں ہوتا انھیں بھی چند گھنٹوں کے لیے حراست میں لے کر پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
"لیکن یہ کہنا کہ افغان پناہ گزینوں کو خاص طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے تو میں بحیثیت چیف کمشنر یقین دلاتا ہوں کہ ایسا درست نہیں ہے۔"
تنظیم کے مطابق اس نے پاکستان میں بسنے والے 46 اور افغانستان واپس جانے والے 50 افغان شہریوں کے علاوہ دونوں ملکوں کے حکام، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین، غیر سرکاری تنظیموں، صحافیوں اور دیگر مبصرین سے سوال و جواب کرنے کے بعد یہ رپورٹ مرتب کی ہے جس کا عنوان ہے "تم یہاں کیا کر رہے ہو؟، پاکستان میں افغانوں کے خلاف پولیس کی زیادتیاں۔"
پاکستان دنیا میں پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں تین دہائیوں سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مقیم ہیں۔ اقوام متحدہ اور حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 15 لاکھ اندراج شدہ جب کہ دس لاکھ کے قریب غیر قانونی طور پر افغان باشندے مقیم ہیں۔
پاکستانی حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ وہ کسی بھی افغان پناہ گزین کے ساتھ زیادتی کو برداشت نہیں کرے گی لیکن جو لوگ غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہیں ان کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ حکام کے مطابق رواں سال اب تک 55000 ہزار کے قریب افغان رضا کارانہ طور پر اپنے وطن واپس جا چکے ہیں۔
تاہم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں بعض افغانوں سے گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ آرمی پبلک اسکول حملے کے بعد پولیس ان کے گھروں اور جائے کار پر وقت بے وقت چھاپے مارتی اور ان سے رشوت کا مطالبہ کرتی ہے، دوسری صورت میں انھیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔
لیکن عمران زیب کا کہتے ہیں کہ اگر افغان پناہ گزینوں کے ساتھ کوئی زیادتی ہو تو اس کے ازالے کے لیے بھی مناسب اقدام کیے گئے ہیں۔
"خود میرے دفتر میں اور پھر چاروں صوبوں میں ہمارے دفاتر میں سیل بنے ہوئے ہیں پھر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین بھی دیگر اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔"
آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے میں 134 بچوں سمیت 150 افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس واقعے کو پاکستانی تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس حملے کے بعد ملک سے دہشت گردی و انتہا پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے حکومت نے قومی لائحہ عمل وضع کیا اور انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ملک بھر میں مشتبہ افراد کے ہلاک کارروائیوں کو تیز کر دیا گیا۔
ایچ آر ڈبلیو کے مطابق افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں ہی جوان ہوئی، یہیں ان کی شادیاں ہوئیں اور ان کے خاندان کا سلسلہ آگے بڑھا۔
تنظیم کے مطابق افغانستان میں سلامتی اور معاش کی خراب صورتحال کے باعث وہ وطن واپس جانے سے گریزاں ہیں لیکن پاکستان میں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے یا تو یہ جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان چلے جائیں گے یا پھر یورپ کا رخ کرنے پر مجبور ہوں گے۔
ایشیا کے لیے ایچ آر ڈبلیو کے نائب ڈائریکٹر فیلم کائن کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گرد حملوں سے بچاؤ کرے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، "لیکن افغان آبادی کے خلاف پولیس کو انتقامی کارروائی کرنے کی اجازت دینا نہ تو قانونی ہے اور نہ ہی انسداد دہشت گردی کے لیے موثر۔"
انھوں نے پاکستان کے اتحادیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت پر زور دیں کہ وہ افغان پناہ گزینوں اور غیر اندارج شدہ افغانوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی زیادتیوں کو روکے۔ عطیات اور امداد فراہم کرنے والی تنظیموں کو چاہیے کہ افغان پناہ گزینوں اور وطن واپس چلے جانے والوں کو رہائش، تعلیم اور صحت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کی معاونت میں اضافہ کریں۔
کائن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت افغان پناہ گزینوں سے متعلق ایک طویل المدت حکمت عملی تشکیل دینی چاہیے۔
پاکستانی حکومت کے عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں وہ افغانوں کی باعزت وطن واپسی کے عزم پر قائم ہیں۔
حکام کے مطابق افغانوں سے زبردستی نہیں کی جائے گی اور اُن کی واپسی کا عمل رضا کارانہ ہو گا۔
وفاقی وزیر برائے سرحدی اُمور عبدالقادر بلوچ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان نے 35 سال سے افغانوں کی میزبانی کی اور آخر میں ’’ہم کوئی ایسی کارروائی نہیں کرنا چاہتے جس سے ایسا لگے کہ ہم نے حق مہمان داری صحیح طرح سے ادا نہیں کیا۔‘‘