’ہیومن رائٹس واچ‘ کی رپورٹ کے مطابق، حالانکہ اس سال کے اوائل میں متعدد قیدیوں کو رہا کیا گیا، آذربائیجان نے ’’اپنے ناقدین اور آزاد گروپوں کے خلاف اپنی قابلِ ملامت کارروائی‘‘ دہرانے کی بات کی ہے۔
جورجی گوجیا ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے جنوبی قفقاز کے سربراہ اور اس رپورٹ کے مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اس سال کے اوائل میں غلط طور پر قید کیے گئے چند سرگرم کارکنان کی رہائی سے بہت سی توقعات نے جنم لیا کہ شاید اب آذربائیجان ٹھیک سمت کی جانب چل پڑا ہے‘‘۔
لیکن، بقول اُن کے، ’’ایسے میں جب حکومت ناقدین کے خلاف اقدام کر رہی ہے اور غیر وابستہ گروپوں پر بندش عائد کرہی ہے،یہ پُرامیدی تیزی سے اوجھل ہوتی جا رہی ہے ‘‘۔
جمعرات کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں، جس میں 90 سے زائد انٹرویوز میں درج داستانوں کی اطلاعات درج ہیں، ان میں سرگرم سیاسی کارکناں، صحافیوں اور دیگر افراد کے گرفتاری کی دستاویزات موجود ہیں، جسے بین الاقوامی حقوق کے گروپ جھوٹے، سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے مجرمانہ اور انتظامی الزامات قرار دیتا ہے۔
’’کھلے عام قسم کھانا‘‘ اور ’’غنڈہ گردی‘‘ کا مظاہرہ اخلاقی پستی کے چند الزامات ہیں، جو رپورٹ میں درج ہیں، جن کا سرگرم سیاسی کارکنان حوالہ دیتے ہیں۔
آذربائیجان پیٹرول برآمد کرنے والا ملک ہے جس کی معیشت کو سنہ 2015میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں شدید کمی کے باعث نقصان پہنچا؛ جس کے بعد، 2016ء میں حکومت کے ناقدین زیادہ کھل کر بات کرنے لگے۔
سنہ 2016میں ’’من گھڑت الزامات پر‘‘کم از کم 20 مزید سیاسی اور نوجوان کارکنان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی، آذری حکومت نے غیر وابستہ گروپوں کی کارکردگی کی صلاحیت کو سختی سے محدود کر دیا ہے، جن کے باعث اس سال کے اوائل میں رہا کیے جانے والے کارکنان مایوسی کا شکار ہیں۔