انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان' کے ترجمان آئی اے رحمٰن نے کہا ہے کہ پولیس ان کی ایک کارکن کو ڈکیتی کے انداز میں ہراساں کیے جانے کا مقدمہ درج نہیں کر رہی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہایچ آر سی پی کی کارکن آمنہ حسن کو 19 اپریل کو ہراساں کیا گیا اور اسے ڈکیتی کا رنگ دینے کے لیے مریم حسن کے گھر آئے افراد جاتے ہوئے کچھ نقدی، موبائل فونز، لیپ ٹاپ ساتھ لے گئے۔
“اگر ان افراد نے چوری کرنا ہوتی تو اسی وقت کرتے جب دو دن قبل بھی دو افراد مریم حسن کے گھر ان کی غیر موجودگی میں آئے تھے، اس وقت تو انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ تک نہ لگایا”۔
آئی اے رحمٰن نے بتایا کہ ان کی ساتھی نے اس واقعہ پر پولیس سے رابطہ کر کے مقدمہ درج کرانا چاہا تو پولیس نے ایسا کرنے سے منع کر دیا۔
“پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دے رکھی ہے لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے پولیس بھی اس معاملے پر بے بس ہے اور ایف آئی آر درج کرنا نہیں چاہتی”۔
ایچ آر سی پی کے چئیرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنی ساتھی مریم حسن کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ انتہائی قابل افسوس واقعہ ہے جس کے مقاصد ان کے بقول کچھ اور لگتے ہیں۔
“ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ اس واقعہ میں ملوث افراد کی نشاندہی کی جائے اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے”۔
پولیس کا ردعمل جاننے کے لیے وائس آف امریکہ کی طرف سے رابطہ کیے جانے پر ایس پی ماڈل ٹاؤن فیصل شہزاد نے بتایا کہ انہیں اس سلسلے میں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ جیسے ہی کوئی تحریری درخواست موصول ہو گی تو وہ اس پر قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جس نے حال ہی میں اپنی سالانہ رپورٹ میں پاکستان بھر سے لاپتہ ہونے والے افراد کی فہرست، معاشرتی نا انصافیوں اور انسانی حقوق کی پامالی سمیت دیگر معاشرتی رویوں پر کی نشاندہی کی تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری میں مریم حسن بھی شامل تھیں۔