رسائی کے لنکس

نسلہ ٹاور کے معاملے میں کب کیا ہوا، سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں؟


سپریم کورٹ سے غیر قانونی تعمیرات قرار دی گئی کثیر المنزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو کراچی کی انتظامیہ نے 24 نومبر سے گرانے کا عمل شروع کیا۔  (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ سے غیر قانونی تعمیرات قرار دی گئی کثیر المنزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو کراچی کی انتظامیہ نے 24 نومبر سے گرانے کا عمل شروع کیا۔  (فائل فوٹو)

نسلہ ٹاور کے مکین اپنی آنکھوں سے آشیانہ مسمار ہوتا دیکھ کر روہانسے ہوئے جا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ "ہتھوڑا دیوار پر پڑ رہا ہے لیکن چوٹ ان کے دل پر لگ رہی ہے۔ ستون نہیں سر کا سایہ اور مستقبل چکنا چور ہو رہا ہے۔"

سپریم کورٹ سے غیر قانونی تعمیرات قرار دی گئی کثیر المنزلہ عمارت نسلہ ٹاور کو کراچی کی انتظامیہ نے 24 نومبر سے گرانے کا عمل شروع کیا۔

بے گھر ہونے والے متوسط طبقے کے ان خاندانوں نے کیا زندگی بھر کی کمائی سے یہاں جائیداد خرید کر غلطی کی؟ یا تعمیراتی اداروں نے غلط نقشے پر عمارت تعمیر کر کے جعل سازی کی تھی؟ ان سوالات کے جوابات وائس آف امریکہ نے اس تحقیقی رپورٹ میں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔

کراچی کی مصروف ترین شاہراہ شارع فیصل پر قائم 15 منزلہ رہائشی و تجارتی عمارت نسلہ ٹاور سندھی مسلم کو آپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ایس ایم سی ایچ ایس) کے بلاک اے میں واقع پلاٹ نمبر A-193 پر تعمیر کی گئی تھی۔

سرکاری دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ 780 مربع گز کا یہ پلاٹ 23 دسمبر 1950 میں نصرت علی نامی شہری کو الاٹ کیا گیا تھا اور 22 مارچ 1955 کو اس پلاٹ کی ملکیت نصرت علی کی بیوہ مصطفائی بیگم کو منتقل ہوئی تھی۔

ستائیس دسمبر 1957 کو (اُس وقت کے) چیف کمشنر کراچی نے شاہراہ فیصل کے دونوں اطراف 20 فٹ چوڑی اضافی زمین (پٹّی) ایس ایم سی ایچ سوسائٹی کو الاٹ کی۔

اسی برس سوسائٹی نے 20 فٹ چوڑی اس ارضی پٹّی میں سے 264 مربع گز (اضافی) زمین مصطفائی بیگم کو منتقل کی جس کی وجہ سے اس پلاٹ کا سائز ابتدائی 780 مربع گز سے بڑھ کر 1044 مربع گز ہو گیا تھا۔

کراچی میں سال 2001 سے 2005 تک شہری حکومت جماعت اسلامی کے پاس تھی اسی دوران 2004 میں جماعت اسلامی کے سٹی ناظم نعمت اللّہ خان کے دور میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی (سی ڈی جی کے) نے ایک قرارداد کے تحت کمرشلائزیشن پالیسی منظور کی۔ اس کے بعد 31 مارچ 2005 کو مقامی اخبارات میں اس رہائشی پلاٹ کو تجارتی (کمرشل) مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے متعلق ایک پبلک نوٹس شائع ہوا۔

پھر 27 مئی 2005 کو مصطفائی بیگم کے قانونی ورثا نے اس پلاٹ کی ملکیت ایک خاتون رفیقہ رفیق کو منتقل کر دی۔ 2005 سے 2010 تک کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی شہری حکومت تھی۔ نومبر 2006 میں اُس وقت کے ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال شہر کے ناظم تھے تو ایس ایم سی ایچ سوسائٹی نے اس پلاٹ کے استعمال سے متعلق پبلک نوٹس جاری کیا۔

تیس نومبر 2006 کو پلاٹ کے قانونی مالکان نے سوسائٹی سے اضافی 77 مربع گز کے حصول (شمولیت) کی بات کی اور پھر 24 اپریل 2007 کو سوسائٹی نے 77 مربع گز کی اس اضافی زمین کی شمولیت کی منظوری دی۔

بائیس ستمبر 2007 کو سرکاری ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ نے اس پلاٹ کی رہائشی بنیادوں سے تجارتی بنیادوں پر تبدیلی کی منظوری دی تھی۔

انیس فروری 2010 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے دورِ حکومت میں سوسائٹی کی جانب سے 77 مربع گز اس پلاٹ میں شامل کر دیے گئے جس کے بعد اس کا کُل قانونی رقبہ 1121 مربع گز ہو گیا اور اس ضمن میں 12 جون 2010 کو سوسائٹی نے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو تحریراً بتایا کہ اب اُس کی کتابوں کے مطابق اس پلاٹ کی حیثیت تجارتی اور منظور شدہ رقبہ 1121 ہو چکا ہے۔

اکتیس مارچ 2013 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے اس پلاٹ پر 183 فٹ اونچی عمارت کی تعمیر کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفیکیٹ (این او سی) جاری کیا اور پھر چار اپریل 2013 کو سرکاری ادارے کے بی سی اے نے تعمیراتی منصوبے کی منظوری دی۔

اٹھائیس مئی 2013 کو ایس بی سی اے نے نسلہ ٹاور کے نام سے اس منصوبے کے فلیٹس اور کمرشل شورومز کی فروخت اور اشتہارات جاری کرنے کے لیے این او سی کا اجرا کیا۔

دس جون 2013 کو کراچی کے بلدیاتی ادارے کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کے لینڈ ڈپارٹمنٹ نے 1121 مربع گز رقبے کے اس پلاٹ پر مجوّزہ تعمیراتی منصوبے کے لیے اجازت نامہ جاری کیا۔ پھر 24 جون 2013 کو ایس بی سی اے نے اس منصوبے کے تعمیراتی ڈھانچے کے لیے این او سی جاری کیا۔

تیس جولائی 2013 کو ایس بی سی اے نے بیسمنٹ، گراؤنڈ پر شورومز پہلی سے چوتھی منزل تک پارکنگ، پانچویں سے چودھویں منزل تک فلیٹس اور پندرھویں منزل پر فلیٹس اور (صرف) تفریحی جگہ بنانے کی منظوری دی تھی۔

اکتیس فروری 2014 کو ایس بی سی اے نے اس منصوبے کی بنیاد کی تصدیق (پلنتھ ویری فکیشن) جاری کی۔ 18 مئی 2015 کو تحفظ ماحولیات سے متعلق صوبائی ادارے سندھ انوائرونمنٹل پروٹیکشن ایجنسی نے ابتدائی ماحولیاتی جائزہ (انیشل انوائرومنٹ ایگزامینیشن یا آئی ای ای) کی منظوری دی۔

اکیس ستمبر 2015 کو سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے منصوبے کی نظرِ ثانی شدہ بلندی 223 فُٹ کی منظوری دی اور پھر 25 جون 2019 کو ایس بی سی اے کے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ نے اس پلاٹ پر زمین کے استعمال کی تبدیلی سے متعلق رپورٹ جاری کی۔

سیاسی الزامات

انیس فروری 2010 کو پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سے لے کر اب تک اس عمارت کے بارے میں تمام پیش رفت کے بعد اب سندھ حکومت کے ترجمان اور کراچی کے ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب کا مؤقف سامنے آیا ہے کہ اس زمین کو متحدہ قومی موومنٹ کے ناظم مصطفیٰ کمال کے زمانے میں کمرشلائز کیا گیا تھا؛ جس کی بعد ایس بی سی اے نے اس کی توثیق کی۔

مرتضیٰ وہاب کے دعوے کے مطابق 2015 میں ایک شہری نے عدالت جا کر سندھ ہائی کورٹ سے شکایت کی تھی کہ یہ عمارت غلط تعمیر ہو رہی ہے۔ اس کی تعمیر کو روکا جائے۔ البتہ نہ تو عدالت نے کوئی حکمِ امتناع جاری کیا اور نہ ہی کوئی پابندی عائد کی اور بالآخر عمارت کی تعمیر مکمل ہو گئی۔

مرتضیٰ وہاب کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین بنیادی طور پر کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کی ہے۔ 1986 میں اس زمین کی ملکیت کے بارے میں قانون سازی ہوئی اور 2010 میں سندھ ہائی کورٹ نے فیصلہ کیا کہ جس اضافی زمین پر جھگڑا ہے یہ اضافی زمین ایس ایم سی ایچ سی کو ادائیگی کے بعد دے دی جائے۔

سپریم کورٹ کا عمارت گرانے کا حکم

سولہ جون 2021 کو پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران اس عمارت کی سروس روڈ پر تعمیر کی بنیاد پر تجاوز قرار دیا اور اسے گرانے کے احکامات جاری کیے۔

رواں برس انیس جون کو سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو حکم دیا کہ وہ رہائشی و تجارتی متاثرین کو تین ماہ کے اندر ازالے کی رقم ادا کریں اور جب بلڈرز نے اس پر اپیل کی تو اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔

دو ماہ قبل پچیس اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ 'کنٹرولڈ دھماکے' کے ذریعے ایک ہفتے کے اندر اس عمارت کو گرا دیا جائے۔

ان عدالتی احکامات پر انتظامیہ کی جانب سے مکینوں اور تاجروں کو تنبیہ کی گئی کہ 27 اکتوبر 2021 تک عمارت خالی کر دی جائے۔

گزشتہ ہفتے عمارت کو گرائے جانے کا کام شروع کر دیا گیا تھا مگر عدالت نے کمشنر کراچی کو احکامات پر عمل درآمد میں ناکامی پر تنبیہ کی تھی۔

بعض مبصرین کے مطابق اخبارات اور ٹی وی چینل کا جائزہ لیا جائے تو ایک جانب تمام سیاسی جماعتوں کی ہمدردی تو متاثرین کے ساتھ نظر آتی ہے، البتہ دوسری طرف خود متاثرین کے اس شبہے کو بھی تقویت ملتی ہے کہ سیاسی جماعتیں ان کا ساتھ صرف زبانی جمع خرچ سے دے رہی ہیں، جب کہ عملاً محض ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر 'سیاسی پوائنٹ اسکورنگ' کر رہی ہیں۔

نسلہ ٹاور کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ کے مرکزی رہنما سینیٹر فیصل سبزواری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ تب (1957) کی لیز ہے جب کراچی وفاقی دارالحکومت ہوتا تھا۔ ان کے بقول، شارع فیصل کی چوڑائی کم کی گئی تو کسی طرح سروس روڈ کی چوڑائی کے برابر جگہ نکلی۔ سندھی مسلم سوسائٹی 'سب لیز' دیتی تھی مگر 'لیز' دینے کا کام کے ایم سی کرتی تھی۔

اٹھارہ برس قبل کے ایم سی اور سندھی مسلم سوسائٹی کسی قانونی چارہ جوئی میں الجھے تو معلوم یہ ہوا کہ اس ضمن میں اضافی زمین کی (وہ 264 گز زمین جو اصل 780 گز میں بعد میں شامل کی گئی تھی) ایس ایم سی ایچ سوسائٹی کی سب لیز تو تھی، مگر کے ایم سی کی لیز موجود نہیں تھی۔

مبصرین کے مطابق، اصل 780 گز زمین سرکاری اور قانونی طور پر لیز ہے۔ اگر عدالت کہتی ہے کہ کے ایم سی کی لیز ٹھیک اور ایس ایم سی ایچ ایس کی سب لیز غلط ہے، تو بھی پوری عمارت کو گرانے پر سوالات اٹھتے ہیں۔

کیا شہری کراچی سے باہر آباد ہو رہے ہیں؟

سینیٹر فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ عدالت نے عمارت کی بنیاد پر فیصلہ نہیں دیا بلکہ لیز کی بنیاد پر دیا ہے۔ 75 فی صد شہر ایسا ہی ہے تو کیا سارا شہر گرا دیا جائے گا؟

ان کے مطابق بعض لوگوں نے اب یہ بھی کہنا شروع کر دیا ہے کہ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عام شہری بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے) فیز نائن کی طرف جانا شروع ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ بحریہ ٹاؤن اور ڈی ایچ اے فیز نائن کراچی کے ٹول پلازہ سے کئی کلو میٹر آگے جا کر دو نئی آبادیاں بسائی جا رہی ہیں۔

سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ ایم کیو ایم اس معاملے میں فریق بننے کے لیے دو مرتبہ عدالت گئی، لیکن درخواست مسترد کر دی گئی۔ بقول ان کے، عدالتی کارروائی سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی پٹیشن کا سہارا لے کر کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نعمت اللہ خان کی پیٹیشن کراچی میں غیر قانونی قبضوں کے خلاف تھی جو مبینہ طور پر ایم کیو ایم کے زمانے میں کیے گئے تھے۔

حافظ نعیم الرحمٰن کے مطابق کراچی میں کم از کم 35 ہزار عمارات ایسی ہیں جو غیر قانونی زمین پر قائم ہیں، جنھیں، بقول ان کے، ختم ہونا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ جو لوگ یہاں آباد ہیں پہلے انہیں کسی اور جگہ منتقل کیا جائے یا جائز متبادل جگہ دی جائے۔ پھر وہ تمام تعمیرات جو غیر قانونی طور پر پارکس یا کھیل کے میدانوں پر بنائی گئی ہیں انہیں مسمار کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ فوج کی نگرانی میں بننے والے 'کراچی ٹرانسفارمیشن پلان' میں ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف شامل ہیں۔ کور کمانڈر، آئی ایس آئی کے سربراہ اور آرمی چیف بھی اس کے اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، جب کہ ایک بریگیڈیئر ٹرانسفارمیشن پلان کے نگران ہیں۔

صرف نسلہ ٹاور کو کیوں گرایا جا رہا ہے؟ اس سوال پر حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، البتہ وہ عدالت گئے تھے تا کہ اس طرح کی عمارتوں کو گرانے کے لیے اعلیٰ سطح کے کمیشن بنانے پر عدالت کو قائل کر سکیں، بقول ان کے، یہ اقدام اس لیے ضروری ہے تاکہ غلط کو ٹھیک کرنے کا ایک مکینزم بنایا جائے۔

سابق سٹی ناظم کراچی اور پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ کوئی بھی کاغذ دیکھ کر نہیں بتا سکتا؛ سرکاری اداروں کی مہریں لگی ہوئیں ہیں، متعلقہ حکام کے دستخط ہیں اور مین شاہراہ فیصل جیسے وی وی آئی پی روڈ پر کوئی تصور بھی کیسے کر سکتا ہے کہ قبضہ کر کے کوئی کچھ بنا رہا ہو گا؟

انہوں نے کہا کہ نسلہ ٹاور کی عمارت ایک یا دو دن میں تعمیر نہیں ہوئی جس طرح عمارت کو گرانے میں بڑی مستعدی دکھائی جا رہی ہے، اسی طرح ازالے کے لیے بھی کوشش ہونی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG