رسائی کے لنکس

 خان کا گھر، ناراض جنرلز اور تفریق کا شکار پاکستان


 عمران خان کا لاہور میں گھر جس کے باہر میڈیا کی وینز موجود ہیں ، فوٹو رائٹرز 18 مئی 2023
عمران خان کا لاہور میں گھر جس کے باہر میڈیا کی وینز موجود ہیں ، فوٹو رائٹرز 18 مئی 2023

لاہور شہر کا شاندار سر سبز زمان پارک کا علاقہ اب اتنا پرسکون نہیں رہا۔ اس کے اندر واقع سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ ایک سیاسی قلعہ بن چکی ہے جہاں سے وہ اس وقت حکومت اور ملک کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ افسران سے برسرپیکار ہیں۔

1992 میں جب خان نے اپنی کپتانی میں پاکستان کا تاریخی کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا تو ہزاروں شائقین نے اس گھر کو گھیر لیا تھا۔ یہ مکان اس وقت بھی بہت زیادہ توجہ کا مرکز بنا جب خان نے جمائما گولڈ اسمتھ سے شادی کی اور اسے پاکستان لے آئے- دونوں نے طلاق سے قبل یہاں کئی سال ایک ساتھ گزارے۔

جب خان نے ایک خیراتی مہم چلائی اور کینسر اسپتال بنایا تواس گھر میں لوگ جوق در جوق آتے جاتے دکھائی دیے اور پھر جب انہوں نے ایک بڑی سیاسی پارٹی کا آغاز کیا تو وقت یہاں جمع ہونے والے ہجوم مزید بڑے ہو گئے جنہوں نے انہیں ایک کرکٹ اسٹار سے ایک سیاست دان بنتے ہوئے دیکھا۔

اور اب، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے چھاپوں کی کوششوں اوران کے گھر پر درجنوں پولیس اہل کاروں کے گھیرے اور اس کی جانب جانے والی تمام سڑکوں کی بندش کی صورت حال میں جب خان کو اپنی گرفتاری کا خدشہ ہے، اس وقت میڈیا کی گاڑیاں لائیو کیمروں کے ساتھ دن رات یہاں موجود ہیں اس توقع کے ساتھ کہ کچھ اہم لمحات کیمروں میں محفوظ کیے جا سکیں گے۔

انہیں 9 مئی کو اسلام آباد میں عدالتی احاطے کے اندر سے نیم فوجی دستوں کی طرف سے بدعنوانی کے الزام میں ڈرامائی گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا، لیکن عدالتی احکامات پر انہیں رہا کر دیا گیا۔ ان کی گرفتاری نے بڑے پیمانے پر، پرتشدد مظاہروں کو جنم دیا اور ان کے حامیوں پر لاہور میں ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر کی رہائش گاہ کو نذر آتش کرنے، فوجی تنصیبات پر حملے، توڑ پھوڑ اور جلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

پاکستان کے آرمی چیف جنرل منیر نے فوجی تنصیبات پر حالیہ حملوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔

برہم فوج نے خان کی مخالف اتحادی حکومت کے ساتھ مل کر اعلان کیا کہ حملوں کے ملزمان کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے ۔ فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے خلاف مقدمہ بین الاقوامی قوانین کےمنافی ہے اور اس فیصلے کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

ایک ممتاز پاکستانی صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ فوجی جرنیل ناراض ہیں اور خان اپنے سیاسی کیریئر کی سب سے مشکل جنگ لڑ رہے ہیں۔

پچھلے سال اقتدار سے بے دخل کیے جانے کے بعد سے خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ فوج کے ساتھ ان کی چپقلش بڑھنے کے باوجود ان کے احتجاجی مظاہروں نے بڑے پیمانے پر ہجوموں کو اپنی جانب متوجہ کیا ۔ فوج کے ساتھ ان کی چپقلش اس وقت پہلی بار عیاں ہو ئی جب انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کے ٹرانسفر اور کسی اور کو اس اہم عہدے پر لانے کی کوشش کی مزاحمت کی۔

خان نے تبدیلی کی مخالفت کی اور کہا کہ آئی ایس آئی کا نیا سربراہ مقرر کرنا ان کی صوابدید ہے۔ چند ہی مہینوں بعد وہ اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پاکستان کی اتار چڑھاؤ کی سیاسی تاریخ میں کسی بھی منتخب وزیر اعظم نے پانچ سال کی مدت پوری نہیں کی۔

خان کے اقتدار میں آنے کے بارے میں بڑے پیمانے پر سمجھا جاتا ہے کہ وہ 2018 میں فوج کے تیار کردہ منصوبے کے تحت اس منصب تک پہنچے اور اسٹیبلشمنٹ اور خان کی زیر قیادت حکومت میں غیر معمولی یک جہتی اور افہام و تفہیم کے حوالے سے، ’ ایک صفحے پر‘ ،ہونے کا جملہ سیاسی حلقوں میں گونجتا رہا ۔

لیکن اقتدار سے باہر ہونے کے بعد خان اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل باجوہ کے سخت ناقد بن گئے اور انہوں نے جنرل پر اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کرنے کا الزام عائد کیا، جس کی فوج نے تردید کی ۔

خان نے پھر گزشتہ سال نومبر میں آئی ایس آئی کے انٹیلی جنس کے ایک سینئر عہدے دار پر اپنے خلاف قتل کی کوشش کا الزام عائد کیا ۔ انہوں نے انٹیلی جنس افسروں کو ہدف بنایا۔ ان پر ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی منصوبہ بندی کا الزام عائد کرتے ہوئے انہیں ’ ڈرٹی ہیری‘ اور ’مسٹر ایکس‘ قرار دیا۔

تازہ ترین واقعے میں خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر پر اپنی گرفتاری کا براہ راست الزام لگایا۔ فوج نے اس الزام کی سختی سے تردید کی۔ اپنی رہائی کے بعد نامہ نگاروں سے گفتگو کے دوران خان سے یہ بیان منسوب کیا گیا کہ ’یہ فوج تھی جس نے مجھے اغوا کیا تھا۔ آرمی چیف کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے گرفتاری کا حکم دیا تھا‘۔

اس طرح کے الزامات اور مبینہ طور پر اپنے حامیوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملوں کے پیش نظر خان اب فوج کے ساتھ محاذ آرا ہیں۔

عمران خان اس معاملے کو آرمی چیف کے ساتھ تنازع کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل کے ایک ممتاز رکن اورمصنف شجاع نواز کہتے ہیں، ’’ یہ ایک خطرناک حربہ ہے‘‘۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ خان نے ممکنہ طورپر مختصر مدت میں ان کی (جنرل منیر) کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا اوروہ فوج میں خان نواز عناصر سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے‘‘۔

شجاع نواز کہتے ہیں کہ فوجی سربراہ نے اندرونی دراڑ کو عوام کی نظروں میں نہیں آنے دیا ۔ اس ضمن میں ان کا استدلال ہے کہ مثال کے طور پر کسی کونہیں معلوم کہ لاہور کے کور کماننڈر کے ساتھ کیا ہوا (جن کا گھر مشتعل ہجوموں نے جلا دیا تھا)۔

اب عمران خان کو بدعنوانی سے لے کر دہشت گردی اور توہین مذہب تک کے 100 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ان کے پس پشت سیاسی محرکات کار فرما ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے10 ہزار کارکن اور حامی سلاخوں کے پیچھے ہیں، اوران کی پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ان کے قریبی ساتھی اور پارٹی رہنما پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کر چکے ہیں ۔ خان نے ان علیحدگیوں کو جبری طلاقیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں زبردستی الگ کروایا گیا ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ حکومت 9 مئی کے پرتشدد واقعات پرخان کی جماعت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے پر غور کر رہی ہے۔

تجزیہ کار عباس کہتے ہیں کہ خان کی پارٹی کے خلاف پکڑ دھکڑ کے دوران ایک سیاسی جماعت سے علیحدگی، بے وفائی یا اس پر پابندی پاکستان کے سیاسی تھیٹر پر،ایک پرانے اسکرپٹ کے ساتھ ایک نئی فلم کے مترادف ہے۔

ہم نے سیاسی پارٹیوں کے خلاف ایسے ہی حربے فوجی حکومتوں اور حتیٰ کہ منتخب حکومتوں کے دوران دیکھے ہیں۔ ان کا اثرمختصر مدت کے لیے ہوتا تھا لیکن طویل عرصے میں اس کا الٹا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔

خان پارٹی صفوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، اور فوج کے اندر ان کی حمایت کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک USIP کے ایک سینئر ماہر، اسفندیار میر کہتے ہیں کہ خان کے حامیوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے فوج کے اندر پریشانی اور اہانت کا گہرا احساس ہے۔

خان کا کہنا ہے کہ پر تشدد حملوں میں ان کے کارکنوں کے ملوث ہونے کے الزامات منظم پروپیگنڈہ ہیں، جو ان کی پارٹی کو ختم کرنے کی سازش کا حصہ ہیں۔ اس کے بعد وہ کہتے رہے کہ ان کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ پی ڈی ایم ہے (ان کا حریف حکمران اتحاد) جو فوج اور میرے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

اسفند یار میر کہتے ہیں کہ عمران خان اب بیک فٹ پر ہیں… جب کہ شروع میں ایسا لگتا تھا کہ خان اپنی مقبولیت اور اس وجہ سے فائدے میں ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اندر ان سے نمٹنے کے طریقوں پراختلافات پائے جاتے ہیں ۔ اسفند یار میر کہتے ہیں کہ آگے چل کر فوج کی اشرافیہ کے نیٹ ورکس میں خان کی حمایت غیر فعال یا حتیٰ کہ کافی حد تک گھٹ بھی سکتی ہے۔

اسفند یار میر کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا فوج اپنی اس عوامی حمایت کو مکمل طور پر بحال کر سکتی ہے جو اسے روایتی طور پر حاصل تھی، جسے اس نے پچھلے سال خان کے سیاسی حملوں کی وجہ سے کھو دیا گیا تھا۔

ملک کی سیاسی اتار چڑھاؤ کی تاریخ کے باوجود موجودہ سیاسی تفریق کی اس سے قبل کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ خان نے حکمران اتحاد کے ساتھ پنجہ آرائی کی ہے، انہیں 'کٹھ پتلی' کہا ہے اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کے مطابق عدلیہ ملک کا واحد قابل تعریف ادارہ ہے۔

دوسری جانب، شریفوں کی پاکستان مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت حکمران اتحاد عوامی طور پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر خان کے لیے "نرم گوشہ" رکھنے کا الزام لگاتا ہے، اور حکومتی وزراء قانون سازی کے ذریعے ان کے اختیارات کم کرنے کی دھمکی دیتے ہیں، جس پر بہت بحث مباحثہ ہے۔

ماضی کے برعکس جب یا تو چیف جسٹس، آرمی چیف، یا وزیر اعظم یا صدر نے مداخلت کی اور کسی سمجھوتے کو ممکن بنایا، اس شدت کی تفریق ثالثی کے امکان میں رکاوٹ ڈالتی ہے ۔

سیاسی عدم استحکام جوہری ہتھیاروں سے لیس پاکستان کی کمزور معیشت کو مزید بد تر بنا رہا ہے۔گھٹتے ہوئے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر، بڑھتے ہوئے قرضے، پاکستانی روپے کے قدر کی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ کمی، بڑھتی ہوئی شرح سود، ، اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ اور افراط زر کی بلند شرح کے بھنور میں پھنسا ملک خود کو ڈیفالٹ سے بچانے کی جدوجہد کر رہا ہے۔

سیاسی بحران کے ساتھ اس قسم کی سنگین معاشی صورت حال حکمران اتحاد کی حمایت کی بنیاد کو تیزی سے ختم کر رہی ہے جس کی وجہ سے حکومت ممکنہ طور پر خان کو اقتدار سے دور رکھنے کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط بنائے گی۔

اور عمران خان اس صورت حال کو اقتدار میں اپنی واپسی کے ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ قبل از وقت انتخابات کرائے جائیں جنہیں بصورت دیگر اس سال اکتوبر میں ہونا ہے۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہماری پارٹی کی مقبولیت سے گھبرا گئے ہیں جو انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرے گی، اسی لیے وہ انتخابات نہیں کروانا چاہتے ۔

سوال یہ ہے کہ کیا خان جلد اقتدار میں واپس آسکتے ہیں؟

تجزیہ کار شجاع نواز کہتے ہیں کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں ۔ یہ اصول عمران خان کے (آرمی چیف) جنرل عاصم منیر کے ساتھ تصادم پر لاگو ہوتا ہے ۔

ادھر لاہور کے اپنے گھر میں خان عدالتی مقدمات میں الجھے ہوئے، اپنے روزانہ پوڈ کاسٹ اور انٹرویوز کی تیاری کرتے ہیں۔ اپنی دوبارہ گرفتاری اور یہاں تک کہ اپنی زندگی کے لیے خدشات کا اظہار کرتے ہیں۔ جب کہ 22 کروڑ کی قوم مسلسل افراتفری میں مبتلا ہے ۔

  • 16x9 Image

    اویس توحید

    اویس توحید وائس آف امریکہ کی ساؤتھ اور سینٹرل ایشیا ڈویژن کے ساتھ بطور سینئر ایڈوائزر وابستہ ہیں۔ پاکستان کے اندر شعبہٗ صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ پاکستان کے سرکاری ٹی وی کے ساتھ ساتھ کئی نجی چینلز کے سربراہ رہے ہیں۔ انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں جنگوں اور شورشوں پر وسیع رپورٹنگ کی ہے اور اسرائیل سے بھی حالات و واقعات کو قلم بند کیا ہے۔ اس کے علاوہ اویس توحید نے لندن میں بی بی سی ورلڈ سروس، اے ایف پی اور کرسچن سائنس مانیٹر جسیے اداروں کے لیے بھی خدمات انجام دی ہیں اور دنیا کے کئی بڑے بین الاقوامی اشاعتی اداروں کے لیے رپورٹنگ کی ہے۔

    @OwaisTohid

XS
SM
MD
LG