رسائی کے لنکس

مودی کا دورۂ آسٹریلیا؛ پارلیمان میں گجرات فسادات سے متعلق ڈاکیومنٹری کی نمائش


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے آسٹریلیا کے اپنے دورے کے موقع پر 24 مئی کو اپنے ہم منصب اینتھونی البنیز سے دو طرفہ امور پر تبادلۂ خیال کیا۔ لیکن اسی شام کینبرا میں آسٹریلیا کی پارلیمنٹ میں گجرات فسادات سے متعلق برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ کی نمائش کی گئی اور ایک مباحثہ منعقد کیا گیا۔

اس پروگرام کا انعقاد وہاں کے بعض قانون سازوں اور انسانی حقوق کے ایک گروپ نے کیا تھا۔

بھارتی حکومت نے اس فلم کو پروپیگنڈا فلم قرار دیتے ہوئے جنوری میں سوشل میڈیا پر اسے دکھانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ تاہم جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) نئی دہلی سمیت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں اس کی نمائش کی گئی۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے 19 جنوری کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ یہ ایک پروپیگنڈے کا حصہ اور جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کا ایجنڈا ہے۔ اس میں تعصب کی کارفرمائی اور غیر جانب داری کی کمی ہے۔

مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے گجرات کے سابق آئی پی ایس اور جیل میں بند سنجیو بھٹ کی صاحبزادی آکاشی بھٹ نے کہا کہ جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ بہت کم ہے۔ گجرات مہینوں تک جلتا رہا اور مسلمانوں کو بے رحمی سے نشانہ بنایا جاتا رہا۔

میسی یونیورسٹی کے موہن دتہ نے کہا کہ ہندوتوا نے ہمارے خطے میں جمہوریت کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں، اس صورتِ حال کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

ڈیوڈ شوبریج نے کہا کہ ’بھارت میں سچ بولنا جرم ہو سکتا ہے۔‘ ان کے بقول میں نے بہت سے بھارتی تارکین وطن سے جو کہ آسٹریلیا میں قیام پذیر ہیں گفتگو کی۔

اُنہوں نے کہا کہ کچھ بولنا بہت مشکل ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے اہلِ خانہ خطرے میں پڑ جائیں گے۔ جب ہم یہاں سے واپس جائیں گے تو ہمارے لیے بھی مشکلیں کھڑی ہو سکتی ہیں۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ آکاشی بھٹ نے صرف ایک جملہ کہا لیکن وہ قانون کی حکمرانی کے تعلق سے تشویش پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ضرورت تھی کہ ہمارے وزیر اعظم کچھ بولتے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے بھارتی ہم منصب سے ملیں اور ان کے سامنے یہ مسئلہ نہ رکھیں۔

سنیٹر جارڈن اسٹیل جان نے اس پر اظہارِ افسوس کیا کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم اینتھونی البنیز نے اپنے بھارتی ہم منصب نریندر مودی سے گفتگو کے دوران بھارت میں بقول ان کے انسانی حقوق کی بگڑتی صورتِ حال پر کوئی گفتگو نہیں کی۔

بعض مقررین نے بھارت میں نفرت انگیز تقریروں اور بیانات کا حوالہ دیا اور یہ بھی کہا کہ بھارت کے عوام نے ہندو اکثریت کی بالادستی اور نفرت انگیزی کو مسترد کر دیا ہے۔

اس پروگرام میں انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت کے سابق سربراہ آکار پٹیل کو بھی شرکت کرنی تھی لیکن انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اس میں شریک نہیں ہو سکے۔


نئی دہلی کے بعض تجزیہ کاروں او رانسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ کسی دوسرے ملک میں اس فلم کی نمائش اور اس پر گفتگو اس بات کی عکاس ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر دنیا کی نظر ہے۔

سینئر تجزیہ کار اور ستیہ ہندی ڈاٹ کام کے ایڈیٹر آشتوش کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی آسٹریلیا میں موجودگی کے دوران وہاں کی پارلیمنٹ میں اس فلم کی نمائش اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں جمہوریت کافی مضبوط ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہاں اظہار کی آزادی ہے اور کوئی بھی فلم ہو اسے دکھایا جاتا ہے اس پر پابندی عائد نہیں کی جاتی۔

انسانی حقوق کے بعض کارکنوں کا خیال ہے کہ ایسے وقت جب کہ وزیرِاعظم مودی وہاں موجود تھے اس فلم کی نمائش اور وہ بھی وہاں کی پارلیمنٹ میں کسی نہ کسی حد تک ان کی سبکی کے مترادف ہے۔

دہلی اقلیتی کمیشن کی مسلمانوں سے متعلق کمیٹی کے ایک سابق رکن اور انسانی حقوق کے کارکن نے نام راز میں رکھنے کی شرط پر کہا کہ مودی کے دورے کے موقع پر بی بی سی فلم کی نمائش باعث ندامت ہے۔ اس پر وزیر اعظم اور حکومت کو غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا۔

لیکن آشوتوش ایسا نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں فلم کی نمائش نریندر مودی کے لیے شرمندگی کا باعث نہیں ہوئی۔

انسانی حقوق کی ایک تنظیم ’فورم فار سول رائٹس‘ کے چیئرمین سید منصور آغا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں وہاں کی پارلیمنٹ میں اس فلم کی نمائش بہرحال بھارت کے لیے خوشی کی بات نہیں ہے۔

ان کے بقول مودی اپنے ملک میں اس فلم پر پابندی لگا سکتے ہیں لیکن دوسرے ملکوں میں نہیں۔ بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر عالمی برادری کی نظر ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ آسٹریلیا میں مودی کا ویسا استقبال نہیں ہوا جیسا کہ ہونا چاہیے۔ یہاں تک کہ ایئرپورٹ پر ان کا خیرمقدم بھارت میں آسٹریلیا کے سفیر نے کیا۔


ادھر اس بیان پر کہ اینتھونی البنیز کا نریندر مودی کے سامنے بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر آواز نہ اٹھانا افسوسناک ہے۔

آشوتوش کا کہنا تھا کہ یہ وہاں کے وزیر اعظم کا فیصلہ ہے کہ وہ کس موضوع پر گفتگو کریں گے اور کس پر نہیں۔ دو سربراہان مملکت کی ملاقات میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے جو باہمی رشتوں کے لیے نقصان دہ ہو۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب امریکی صدر جو بائیڈن مودی سے ملے تو انہوں نے بھی کوئی متنازع بات نہیں اٹھائی۔ لیکن امریکہ ہی کے مذہبی آزادی سے متعلق کمیشن نے بھارت میں انسانی حقوق کی مبینہ پامالیوں پر اپنی رپورٹس میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال مارچ کے اوائل میں جب بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے امریکہ کا دورہ کیا تھا تو دو مارچ کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک نیوز کانفرنس میں ان کی موجودگی میں کہا تھا کہ انھوں نے بھارت میں انسانی حقوق کے مسائل اور امریکہ کی نجی تنظیموں پر پابندی کا معاملہ ان کے سامنے اٹھایا ہے۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 2002 میں گجرات میں ہونے والا فساد دراصل انسانی 'نسل کشی' تھی۔ برطانوی حکومت کی ایک خفیہ رپورٹ کے حوالے سے اس وقت کے گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی پر بھی الزامات عائد کیے گئے اور فسادات کے لیے انہیں ذمے دار قرار دیا گیا ہے۔

لیکن سپریم کورٹ کی ہدایت پر تشکیل کی جانے والی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں نریندر مودی کو کلین چٹ دی ہے۔ کانگریس کے مقتول سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری نے کلین چٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

آشوتوش کا کہنا ہے کہ بی بی سی کی فلم پر بھارتی حکومت کی جانب سے غیر ضروری پابندی لگا ئی گئی۔ اس فلم میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو نئی ہو یا جس کے بارے میں عوام نہ جانتے ہوں۔

گجرات کی ایک نجی تنظیم ’جسٹس آن ٹرائل‘ نے دہلی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ فلم میں بھارت کے عوام، عدلیہ اور وزیر اعظم کی اہانت کی گئی ہے۔

ہائی کورٹ نے 22 مئی کو اس اپیل پر بی بی سی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کیا ہے۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے فروری میں اس اپیل کو مسترد کر دیا تھا جس میں فلم پر مکمل پابندی عائد کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG