رسائی کے لنکس

بھارت: مودی کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح پر تنازع


بھارت کے وزیرِاعظم نریندرمودی اپنے ڈریم پروجیکٹ 'سینٹرل وِسٹا' کے ایک اہم حصے یعنی پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا 28 مئی کو افتتاح کریں گے۔ البتہ اس تقریب سے قبل ایک تنازع پیدا ہوگیا ہے۔

حزبِ اختلاف کی 19 جماعتوں نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تقریب کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ وزیر اعظم نریند رمودی کے بجائے صدر دروپدی مورمو کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرنا چاہیے۔

کانگریس، ترنمول کانگریس(ٹی ایم سی)، عام آدمی پارٹی، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) اور بائیں بازو سمیت حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے صدر کو نظرانداز کرکے خود پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کرنا نہ صرف جمہوریت کی توہین اور اس پر براہِ راست حملہ ہے بلکہ صدر کے دفتر کی تضحیک اور آئین کی روح کے منافی ہے۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جب 10 دسمبر 2020 کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا تھا تو کانگریس نے اس تقریب کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔

کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ صدر دروپدی مورمو سے افتتاح نہ کروانا اور انہیں اس تقریب میں مدعو بھی نہ کرنا صدر کے دفتر کی شدید توہین ہے۔ ان کے بقول پارلیمان کی تعمیر آئینی اقدار کےتحت ہوئی ہے نہ کہ'انا کی اینٹوں سے۔'

حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ صدر ملک کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔ صدر کے بجائے وزیرِاعظم کے ہاتھوں افتتاح صدر بالخصوص ملک کی پہلی خاتون قبائلی صدر کی توہین ہے۔

کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے کے بقول صدر ،حکومت، حزب اختلاف اور ہر شہری کا نمائندہ ہوتا ہے۔ پارلیمان کی تشکیل صدر، نائب صدر اور راجیہ سبھا اور لوک سبھا کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں اختیارات کو تقسیم کیا گیا ہے۔ لوک سبھا کے اسپیکر یا پھر راجیہ سبھا کے چیئرمین کو اس عمارت کا افتتاح کرنا چاہیے۔

کانگریس اور دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے آئین کی متعدد دفعات کا حوالہ بھی دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق وزیر اعظم کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح آئین کی روح کے بھی منافی ہے۔

حکومت اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے اس پر سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔

مرکزی وزیر ہردیپ پوری کا کہنا ہے کہ کانگریس آئینی دفعات کو غلط طریقے سے پیش کر رہی ہے۔ وہ بھارت کی ترقی اور قومی جذبے سے عاری ہے۔

انہوں نے اپنے ایک بیان میں کانگریس پر منافقت کا الزام عائد کیا اور یاد دلایا کہ اندرا گاندھی نے بحیثیت وزیرِاعظم 24 اکتوبر 1975 کو پارلیمنٹ انیکسی کی عمارت کا افتتاح کیا تھا جب کہ راجیو گاندھی نے بحیثیت وزیرِاعظم 15 اگست 1987کو پارلیمنٹ کی لائبریری کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔

بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے راہل گاندھی کی مخالفت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جب بھی ملک میں کوئی تاریخی موقع آتا ہے تو وہ سینہ کوبی کرنے لگتے ہیں۔

انہوں نے نشریاتی ادارے' این ڈی ٹی وی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی ملک ترقی کرتا ہے وہ بد شگونی کے طور پر سامنے آجاتے ہیں۔

واضح رہے کہ لوک سبھا سکریٹریٹ کی ایک اشاعت کے مطابق پارلیمنٹ انیکسی کا سنگ بنیاد تین اگست 1970 کو اس وقت کے صدر وی وی گری نے رکھا تھا جس کا افتتاح اندرا گاندھی نے کیا تھا۔ اسی طرح سات مئی 2002 کو اس وقت کے صدر کے آر نارائنن نے پارلیمنٹ لائبریری کی عمارت کا افتتاح کیا تھا۔

کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے ہردیپ پوری کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ انیکسی اور لائبریری پارلیمنٹ کی ضمنی عمارتیں ہیں جب کہ مودی مکمل عمارت کا افتتاح کرنے والے ہیں۔

وزیرِاعظم کی جانب سے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے ممکنہ افتتاح پر سینئر تجزیہ کار رویندر کمار کا کہنا ہے کہ یہ ون مین شو ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نریندر مودی نے ہی سینٹرل وِسٹا کی تجویز رکھی،اس کا سنگ بنیاد رکھا جب کہ وہ تعمیرات کے دوران وہاں جا کر جائزہ بھی لیتے رہے۔ ان کے بقول اس کی آرائش میں بھی ان کا عمل دخل ہے۔ اب وہ اس کا افتتاح بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے اسے وزیرِاعظم کے منصب کے وقار کے منافی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم آئین کو بھول گئے ہیں۔ آئین کی دفعہ 52 میں لکھا ہے کہ ملک بھارت کے صدر کے نام سے چلے گا۔ پروٹوکول میں صدر سب سے اوپر ہے، اس کے بعد نائب صدر ہے اور وزیر اعظم تیسرے نمبر پر ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ وزیر اعظم کے ہاتھوں پارلیمنٹ کی عمارت کا افتتاح آئین کی دفعات کے منافی تو ہے ہی بلکہ یہ سیکولرزم کے بھی خلاف ہے۔

ان کے مطابق بھارت ایک سیکولر ملک ہے لیکن نئے پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح ہندو مذہب کی رسومات کے مطابق کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو اس کی بھی مخالفت کرنی چاہیے کہ افتتاح کسی ایک خاص مذہب کی رسومات کے مطابق نہ کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم مودی ہر ایسے موقع پر ہندو مذہب کی رسومات کے مطابق کام کرتے ہیں۔ اس طرح ملک کی ہندو اکثریت کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بھارت ہندو ملک ہے۔ ان کے اس قدم کی بھرپور مخالفت کرنی چاہیے کیونکہ بھارت ہندو ملک نہیں بلکہ ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔

انہوں نے سابق مرکزی وزیر ہیم وتی نندن بہوگنا کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ مواصلات کے وزیر تھے تو ممبئی میں مواصلات کی عمارت کا افتتاح کرنے گئے۔ اس وقت ان کے سامنے ناریل لایا گیا تاکہ وہ اسے پھوڑ کر ہندو مذہب کی رسومات کے مطابق افتتاح کریں۔ لیکن انہوں نے اس کی مخالفت کی اور ناریل پھوڑنے سے انکار کر دیا۔

سینئر تجزیہ کار ایس این ساہو نے 'دی وائر' کے لیے اپنے مضمون میں آئین کی متعدد دفعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ جمہوریت میں صدر کا منصب سب سے بڑا ہے نہ کہ وزیر اعظم کا۔ لہٰذا وزیر اعظم کے ہاتھوں نئی عمارت کا افتتاح جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دستور کی دفعہ 53 کے مطابق صدر تینوں مسلح افواج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔ لیکن جب انڈیا گیٹ کے وسیع لان پر نیشنل وار میموریل تعمیر کیا گیا تو اس کا افتتاح اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند سے نہیں کرایا گیا بلکہ وزیر اعظم مودی نے 25 فروری 2019 کو خود اس کا افتتاح کیا۔

یاد رہے کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت وزیر اعظم کے سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کا ایک حصہ ہے جس کے تحت انڈیا گیٹ سے رائسینا ہل پر واقع راشٹرپتی بھون تک متعدد دفاتر کی تعمیر کی جا رہی ہے۔

یہ پروجیکٹ2020 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس وقت ملک کو کورونا کا سامنا تھا۔ اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ اس پروجیکٹ کو 2026 تک مکمل ہونا ہے۔

رپورٹس کے مطابق اس پروجیکٹ پر 13 ہزار 450 کروڑ روپے یعنی ایک اعشاریہ سات ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا جب کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت پر 862کروڑ روپے کا خرچ آیا ہے۔

نئی پارلیمنٹ میں لوک سبھا میں 888 اور راجیہ سبھا میں 300 نشستیں ہیں۔ پرانی پارلیمنٹ میں نشستوں کی تعداد بالترتیب 543 اور 250 ہے۔ نئی عمارت 65 ہزار مربع میٹر پر پھیلی ہے جب کہ پرانی 24 مربع میٹر پر محیط ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG