رسائی کے لنکس

دادو: گل سما قتل کیس، قبر کشائی کی اجازت


سندھ کے ضلع دادو میں مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل ہونے والی نو سالہ بچی گل سما کی قبر کشائی کی اجازت دے دی گئی ہے، جس کے بعد میڈیکل بورڈ پوسٹ مارٹم کرکے قتل کے محرکات کا جائزہ لے گا۔

ادھر پولیس نے کیس میں گرفتار والد سمیت دو افراد کے ریمانڈ میں توسیع حاصل کرلی ہے۔ تاہم، پولیس اب تک واقعے میں ملوث مزید چار ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پولیس کو مبینہ طور پر غیرت کے نام پر ہونے والے اس قتل کے دیگر کرداروں میں جرگہ کرنے والے افراد اور اس لڑکے کی بھی تلاش ہے جس کے ساتھ مبینہ تعلقات پر لڑکی کو قتل کیا گیا۔

پولیس کے مطابق، واہی پاندھی تھانے کی حدود میں کھیرتھر پہاڑی سلسلے میں سندھ، بلوچستان کی سرحد پر واقع گاؤں شاھی مکان میں نو سالہ لڑکی گل سما کو مبینہ طور پر ’’کاری‘‘ قرار دینے کے بعد پتھر مارمار کر قتل کیا گیا۔ یہ واقعہ 22 نومبر کا بتایا جاتا ہے۔

پولیس نے والد علی بخش سمیت پانچ ملزمان کے خلاف قتل کی دفعات کے تحت کیس رجسٹرڈ کیا ہے، جس میں سے اب تک دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب، بچی کے والد علی بخش جو کہ اس کیس میں گرفتار ہے، نے پولیس کو دیے گئے اپنے بیان مین دعویٰ کیا ہے کہ اس کی بیٹی کی موت پہاڑی تودہ گرنے سے ہوئی ہے۔ والد کے بیان کے مطابق، بچی کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی جبکہ غیرت کے نام پر ’کارو کاری‘ قرار دیے جانے والے افراد کی عام طور پر نماز جنازہ ادا نہیں کی جاتی۔

ادھر واقعے پر وزیر اطلاعات سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ ایک سنگین واقعہ ہے اور اگر اس میں صداقت ہے تو ملزمان کو ہر صورت قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ تاہم، انہوں نے بتایا کہ فی الحال ایسے کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ واضح ہو کہ یہ قتل ہے غیرت کے نام پر کیا گیا ہے۔

سعید غنی کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اس واقعے کے بعد انتظامیہ کو فوری صورتحال کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔ صوبائی حکومت نے عوام سے بھی اپیل کی ہے کہ اگر اس واقعے سے متعلق کوئی مزید شواہد ہوں تو پولیس کو آگاہ کیا جائے۔

صوبہ سندھ میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات عام ہیں مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا مبینہ واقعہ سامنے آیا ہے، جب کسی کو پتھر مار کر قتل کیا گیا ہو۔ تاہم، ابھی اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔

سماجی ورکرز اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے واقعے پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اس واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

دادو سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر سہیل لنجار نے کہا ہے کہ اگرچہ ایسے واقعات میں کمی دیکھنے میں ضرور آئی ہے، لیکن اب بھی یہ واقعات صوبے کے دور دراز علاقوں بالخصوص شمالی سندھ میں عام ہیں جہاں قبائلی روایات اب بھی سماجی نظام کا حصہ ہے؛ جبکہ تعلیم کی جانب رجحان کم ہے۔

ان کے مطابق، ایسے واقعات سے نمٹنے کے لئے مائینڈ سیٹ کی تبدیلی ناگزیر ہے جس کے لئے تعلیم اور شعور اجاگر کرنے کے ساتھ سخت قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔

سندھ پولیس کی حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صوبے بھر میں گزشتہ ڈھائی سال کے دوران 279 افراد کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، جبکہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران ’کارو کاری‘ یا غیرت کے نام پر 80 افراد قتل ہوئے، جن میں 51 خواتین اور 29 مرد شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، گزشتہ چھ ماہ کے دوران پیش آنے والے واقعات پر پولیس نے 65 مقدمات درج کیے، جن میں سے بیشتر کی تحقیقات کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکی۔ اس کی کئی وجوہات میں سے ایک پولیس کے تفتیشی نظام میں کمزوریاں بتائی جاتی ہیں۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG