ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والے سرگرم کارکن 'جوشوا وونگ' کو مظاہروں کی منصوبہ بندی کرنے کے شبہ میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جوشوا وونگ جمہوریت کے حق میں ہونے والے 2014 مظاہروں کے روحِ رواں ہیں۔ اِن مظاہروں کی وجہ سے 79 دنوں تک ہانگ کانگ میں نظام زندگی مفلوج رہا تھا۔
جوشوا توہین عدالت کے جرم میں ہونے والی پانچ ماہ کی سزا مکمل کر کے جون میں ہی رہا ہوئے تھے۔ لیکن، انہیں ایک مرتبہ پھر جمعے کو مظاہرین کو متحرک کرنے کے شبہ میں حراست میں لیا گیا ہے۔
اس سے قبل جمہوریت کے حامی دو دیگر کارکن اینڈی چن اور اینجس چو کو بھی امن و امان متاثر کرنے کے خدشے کے پیش نظر حراست میں لیا جا چکا ہے۔
وونگ کی سیاسی جماعت 'ڈیموسستو' کی طرف سے ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ جوشوا کو سڑک پر کھڑی ایک گاڑی میں یک دم ڈال کر لے جایا گیا ہے۔
ٹوئٹ میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ جوشوا کو 'وان چائے' میں قائم پولیس ہیڈ کوارٹر منتقل کردیا گیا ہوگا۔ تاہم، اُن کے وکلا اس کیس پر کام کر رہے ہیں۔
پولیس کی طرف سے وونگ کی گرفتاری سے متعلق کوئی بیان نہیں دیا گیا ہے۔
تازہ دم فوجی دستے تعینات
ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامیوں کے تین ماہ سے جاری مظاہروں کے باعث چین کی طرف سے جمعرات کو تازہ دم فوجی دستے تعینات کیے گئے ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق، "فوجی دستوں کی تبدیلی معمول کی کارروائی ہے۔"
مبصرین کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ میں تعینات فوج کی تعداد آٹھ سے دس ہزار ہے، جنھیں شمالی چین اور سابق برطانوی آرمی بیرکس میں تقسیم کیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، شیک کانگ ملٹری بیس کے گرد و نواح میں ہونے والی ملٹری سرگرمیوں میں قدرے اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
ہانگ کانگ میں احتجاج کرنے والے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ اُنہیں ہانگ کانگ کے نئے سربراہ کے انتخاب کے سلسلے میں منصفانہ اور آزادانہ طور پر ووٹ دینے کا اختیار دیا جائے۔
یاد رہے کہ ہانگ کانگ میں مظاہرے اُس وقت شروع ہوئے جب پارلیمان میں ایک قانونی مسودہ پیش کیا گیا، جس میں ایسے افراد کو چین بھیجنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا، جن پر مجرمانہ اقدامات میں ملوث ہونے کا شبہ ہو۔