پناہ گزینوں کے امور سےمتعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے حکومتوں سے ان لاکھوں بے وطن لوگوں کو شہریت کے بنیادی حقوق دینے کی اپیل کی ہے جو امتیازی سلوک، ملک بدری اور ایذا رسانی میں مبتلا ہیں۔
پناہ گزینوں کے امور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے یہ اپیل بے وطنی کو روکنے ، اسے محدود کرنے اور اس کے خاتمے سے متعلق اپنی ایک دس سالہ عالمی مہم کی تیسری سالگرہ کے موقع پر کی ہے۔
روہنگیا دنیا کی سب سے بڑی بے وطن اقلیتی گروپ کی نمائندگی کرتے ہیں ۔اگرچہ وہ کئی نسلوں سے میانمار میں رہ رہے ہیں، تاہم حکومت انہیں اپنے شہری کے طور پر تسلیم نہیں کرتی ۔ انہیں معاشرے کے انتہائی حقیر حصے کی طرح رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور انہیں ان میں سے بیشتر بنیادی حقوق نہیں دیے جاتے جو میانمار کے شہریوں کو حاصل ہیں۔
روہنگیا نسل کے ہزاروں افراد تشدد اور ایذ ارسانی سے فرار اختیار کر کے پڑوسی ملک بنگلہ دیش پناہ لے چکے ہیں۔
پناہ گزینوں کے أمور سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 30 لاکھ افراد بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں جن میں سے 75 فیصد کا تعلق اقلیتی گروپس سے ہے۔
بے وطنی کے خاتمے سے متعلق ادارے کی مہم، آئی بیلونگ ، یہ حقیقت اجاگر کرتی ہے کہ ان افراد کا دنیا بھر میں کوئی وطن نہیں ہے کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جسے یہ اپنا وطن کہہ سکیں۔
یو این ایچ سی آر کے بین الاقوامی تحفظ سے متعلق ڈویژن کی ڈائریکٹر کیرل بیچلرکہتی ہیں کہ بے وطن لوگوں کا شمار مادی اعتبار سے انتہائی محروم اور نا امید افراد میں ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ اس دنیا میں کسی قومیت کے بغیر رہتے ہیں تو آپ کسی بھی شناخت سے محروم ہیں ۔آپ کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے ۔ آپ کے پاس کوئی ایسے حقوق یا مراعات نہیں ہیں ۔ اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہمیں اور آپ کو حاصل ہیں، جنہیں ہم اور آپ اپنا حق سمجھتے ہیں حتیٰ کہ آج یہاں اکٹھے ہونا، کوئی روزگار رکھنا، تعلیم یافتہ ہونا اور یہ جاننا بھی کہ ہمارا بچے کا تعلق کسی سر زمین سے ہے۔
بے وطنی میں کمی لانے کے لیے آئی بیلونگ مہم تین سال قبل شروع ہوئی تھی ۔ ہزاروں بے وطن لوگوں کو، تھائی لینڈ، وسط ایشیا، روس، کینیا، ویسٹ افریقہ جیسے مقامات میں شہریت دی جا چکی ہے لیکن ابھی اس مقصد کے مکمل حصول کا سفر بہت طویل ہے۔
یو این ایچ سی آر تمام ملکوں پر زور دیتا ہے کہ وہ بے وطن اقلیتی گروپس کو مخصوص رہائشی تقاضوں کی تکمیل کے لیے شہریت کے حصول کو آسان بنائیں اور بچوں کو ان ملکوں کی شہریت دیں جہاں وہ جنم لیں اور ثقافتی اور نسلی بنیادوں پر لوگوں کے خلاف امتیازی سلو ک برتنے والے متعلق قوانین اور ضابطہ کار ختم کریں۔