نیویارک میں قائم آزادی اظہار سے متعلق ایک ادارے ’’پین امریکہ‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہالی ووڈ کے بڑے کھلاڑی چینی مارکیٹ میں رسائی کے لیے اپنی فلمیں خود سینسر کرنے لگے۔
ادارے نے اپنی 94 صفحات پر مبنی رپورٹ جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہالی ووڈ کے بڑے کھلاڑی چینی حکام کی ناراضی سے بچنا چاہتے ہیں ’’جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی فلمیں چین کی بڑی مارکیٹ میں ریلیز کی جا سکیں گی۔‘‘
رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ایک سے زائد بار چینی سینسرشپ کے حکام کو فلموں کے سیٹ پر مدعو کیا گیا، تاکہ وہ اس بارے میں رہنمائی کر سکیں کہ کون سی چیزیں سینسرشپ کی زد میں آ سکتی ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چینی سرمایہ کاروں اور سینسر حکام کو راضی کرنا ہالی ووڈ میں عام طور پر رائج ہو چکا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے فیئر بینک سینٹر میں چین پر کام کرنے والے وزٹنگ سکالر اور بیجنگ فلم اکیڈمی کے سابقہ پروفیسر ہاؤ جیان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اس رپورٹ کے نتیجے سے اتفاق کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’’طویل عرصے سے جاری سینسرشپ کی وجہ سے بہت سی پروڈکشن کمپنیاں یہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ جب چین کی مارکیٹ کے لیے فلمیں بنائیں تو ریڈ لائنز کو عبور نہ کریں۔‘‘
رپورٹ کے مطابق اگر چین میں کوئی غیر ملکی فلم ریلیز ہو اور حکام اس میں کچھ مکالمے یا کسی اداکار کو پسند نہیں کرتے تو وہ اس فلم پر پابندی لگا دیتے ہیں۔ پروڈیوسرز کے پاس اس صورت حال میں اپیل کرنے کا حق بھی نہیں ہوتا۔
ہاؤ نے 2012 میں کؤنٹن ٹیرنٹینو کی فلم ’’جینگو ان چینڈ‘‘ کی مثال دی۔ ہاؤ کے مطابق ’’چین کے سنیماؤں میں ریلیز کے اگلے دن امریکی پروڈکشن کمپنی کو چین کے نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن حکام کی جانب سے نوٹس آیا کہ فلم کو فوری طور پر تھیٹرز سے ہٹایا جا رہا ہے۔ اس اقدام کے متعلق کسی قسم کی وجوہات بیان نہیں گئیں۔‘‘
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے سینئیر فیلو اور امریکی ثقافت پر چینی حکومت کے اثر انداز ہونے کی کوششوں پر طویل عرصے سے تحقیق کرنے والے مائیک گونزالز نے کہا کہ ہالی ووڈ کو چاہئے کہ وہ اس بات پر اصرار کرے کہ چین کی مارکیٹ کے لے بنائی گئی فلم کے ورژن کو پوری دنیا پر نافذ نہ کیا جائے۔
مائیک گونزالز نے کہا کہ ’’ہمارے ناظرین کے لیے، ہالی ووڈ کے کار پردازوں کو چاہئے کہ وہ چین سے کہیں کہ ہم اسے سینسر نہیں کریں گے۔ خصوصاً جب ہالی ووڈ بار بار یہ کہتا ہے کہ وہ امریکہ کی آزادی کا حامی ہے۔ ایک طرف تو وہ امریکہ میں انصاف کے نظام پر اصرار کرتا ہے مگر دوسری طرف چین کے ساتھ ناانصافی میں شریک ہے۔‘‘
امریکہ کے بعد چین دنیا کی سب سے بڑی فلمی منڈی ہے۔
ہالی ووڈ رپورٹر ادارے کے مطابق امریکی فلموں نے پچھلے سال چین میں 2.6 ارب ڈالر کا کاروبار کیا۔ صرف ’’ایونجرز اینڈ گیم‘‘ نے چین میں 62.9 کروڑ ڈالر کمائے۔
مگر ہالی ووڈ کی ہر فلم چین میں ریلیز نہیں ہو سکتی۔ 2016 میں فلم ’’ڈیڈ پول‘‘ کو شدید تشدد کے مناظر کی بنا پر چین میں پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ دو برس بعد ’’کرسٹوفر رابنز‘‘ فلم اس وجہ سے ریلیز نہ ہو سکی کیونکہ چینی ناقدین چین کے صدر شی جن پنگ کا مذاق اڑانے کے لیے انہیں اس فلم کے ایک کردار ’’ونی دا پو‘‘ سے تشبیہ دیتے ہیں۔
چینی حکام کے سینسر سے بچنے کے لیے ہالی ووڈ اپنی فلموں میں بعض عناصر شامل کرتا ہے۔ ان عناصر میں چینی ناظرین کو خوش کرنے کے لیے سیکنڈ لیڈ میں چینی اداکاروں کو شامل کرنا اور فلموں کی کہانیوں میں بعض تبدیلیاں شامل ہیں۔
2012 میں فلم ’’ریڈ ڈان‘‘ میں ایک سین میں چین کی فوج کو امریکہ پر حملہ کرتے دکھایا جانا تھا۔ چین کے سب سے بڑے اخبار میں جب اس فلم پر تنقید شائع ہوئی تو پھر فلم میں چین کی بجائے شمالی کوریا کی فوج کو امریکہ پر چڑھائی کرتے ہوئے دکھایا گیا۔
اسی طرح 2017 میں بننے والی فلم ’’ایلین: کووننٹ‘‘ میں دو مردوں کے ایک دوسرے کو بوسہ دینے کے سین کو کاٹ دیا گیا۔
امریکی حکام بھی دنیا کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں چینی پراپیگنڈہ کے خلاف بیانات دیتے رہے ہیں۔
رچرڈ نکسن لائبریری اور میوزیم، کیلی فورنیا میں چین سے متعلق ایک حالیہ تقریر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ’’ہالی ووڈ میں، جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے، اور جو امریکی تخلیقی آزادی کا محور ہے، وہاں سماجی انصاف کے بزعم خود منصف بنے لوگ، چین کے خلاف جانے والے معمولی سے حوالے کو خود ہی سینسر کر دیتے ہیں۔‘‘
امریکی ریاست ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن پارٹی کے سینیٹر ٹیڈ کروز نے جون میں یہ قانون پیش کیا تھا کہ امریکی حکومت امریکی فلمسازوں سے اس وقت تک تمام تعاون ختم کر دے جب تک وہ اس پر رضامندی ظاہر نہ کریں کہ وہ چین کی مارکیٹ میں رسائی کے لیے امریکی فلموں کو سینسر نہیں کریں گے۔