وہ دن چلے گئے جب فلموں میں دکھائی جانے والی دنیا کو خیالی اور تصوراتی سمجھا جاتا تھا، اگر ہالی وڈ میں سپر ہیرو فلمز کا رجحان بڑھا، تو بالی وڈ میں بائیو پکس یعنی اہم شخصیات کی زندگی پر بھی زیادہ تعداد میں فلمیں بننا شروع ہو گئیں۔
یعنی ایسی فلمیں جو کسی ایسے فرد کے گرد گھومتی ہیں جس نے حقیقی زندگی میں کوئی بڑا کام کیا ہو، یا جسے شائقین اس فلم سے پہلے بھی اس کے دیگر کارناموں کی وہ سے جانتے ہوں۔ چاہے یہ شخصیت کھیلوں سے وابستہ ہو، کسی سیاست دان کی ہو یا کسی کاروباری شخصیت یا کسی مشہور ڈاکو کی ہی کیوں نہ ہو۔
حال ہی میں 'ایمیزون پرائم' پر ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم 'شکونتلا دیوی' بھی ایک بائیو پک ہے جو ناظرین میں تیزی سے مقبول ہورہی ہے۔
اس فلم میں ودیا بالن ایک ایسی بھارتی خاتون کے کردار میں نظر آرہی ہیں جنہیں دنیا بھر میں لوگ ہیومن کمپیوٹر کے نام سے جانتے تھے۔ آئیے ایسی بھارتی فلموں پر نظر ڈالتے ہیں جنہوں نہ صرف بائیوپک کے لیے بھارت میں دروازہ کھولا بلکہ کئی ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔
بینڈٹ کوئین، (1994)
بالی وڈ میں ویسے تو بائیوپک فلمز کی کہانی بہت پہلے شروع ہوگئی تھی، لیکن اس کہانی میں موڑ اس وقت آیا جب شیکھر کپور نے 'بینڈٹ کوئین' بنائی جو کسی مشہور ڈاکو پر بننے والی پہلی فلم تھی۔
فلم میں مشہور زمانہ ڈاکو پھولن دیوی کا مرکزی کردار سیما بسواس نے ادا کیا تھا، جبکہ نرمل پانڈے، منوج باجپائی، شوراب شکلا اور دیگر اداکاروں نے اس میں چھوٹے مگر ضروری کردار ادا کیے۔
فلم کی خاص بات اس کی حقیقت کے قریب عکاسی تھی، اور اس کے ذریعے لوگوں کو پتا چلا کہ پھولن دیوی ڈاکو کیوں بنی، کن حالات میں بنی اور کن لوگوں کی وجہ سے بنی۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے نصرت فتح علی خان کی موسیقی نے فلم کو چار چاند لگا دیے۔ یہ پہلا موقع تھا جب معروف قوال نے پہلی بار کسی بھی فلم میں موسیقی ترتیب دی ہو۔
'بینڈٹ کوئین' بھارت میں کئی ایوارڈز جیتنے میں کامیاب ہوئی جن میں سب سے بڑا یعنی نیشنل ایوارڈ، فلم فیئر ایوارڈ اور دیگر ایوارڈز بھی شامل ہیں۔ سیما بسواس کو ان کی بہترین اداکاری پر نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ فلم آج بھی بھارت سمیت دنیا بھر میں مقبول ہے۔
زبیدہ (2001)
جب کیمرے کے پیچھے شیام بینیگل جیسا ہدایت کار ہو اور فلم لکھنے والا کوئی اور نہیں بلکہ مشہور صحافی خالد محمد، تو فلم کے اچھے برے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
خاص طور پر اگر فلم کی کہانی لکھاری کی اپنی والدہ کے گرد گھومتی ہو، یہ فلم تھی 'زبیدہ' جو خالد محمد نے اپنی والدہ پر بنائی تھی۔
وہ والدہ جو دوسری شادی کے بعد خالد کی زندگی سے غائب ہو گئیں اور چند سالوں کے بعد ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں اپنی جان کھو بیٹھیں۔
فلم میں زبیدہ بیگم کا کردار ادا کیا کرشمہ کپور نے جنہیں اس وقت تک لوگ اداکار گوندا کی ہیروئن کے طور پر جانتے تھے۔ اس فلم میں انہوں نے نہ صرف بہترین اداکاری کی بلکہ ناقدین کے مطابق یہ ان کی زندگی کا سب سے کامیاب کردار تھا۔
فلم میں منوج باجپائی، ریکھا، رجت کپور، امریش پوری اور فریدہ جلال جیسے منجھے ہوئے اداکار بھی شامل تھے۔
'زبیدہ' نے بہترین فلم کا نیشنل ایوارڈ تو جیتا ہی، ساتھ میں 'زبیدہ' بننے والی کرشمہ کپور کو بہترین اداکارہ کا فلم فیئر کریٹیک ایوارڈ بھی ملا۔
پان سنگھ تومر (2010)
'پان سنگھ تومر' سے پہلے بھارت میں کھیل سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر فلمیں کم ہی بنیں۔
پان سنگھ بھی اگر صرف کھلاڑی رہتا تو شاید اس پر بھی کوئی بائیوپک نہ بناتا، لیکن اس نے ظلم و ستم کے خلاف کھڑے ہونے کی ٹھانی اور کھیل کے میدان کو چھوڑ کر انصاف کے میدان پر دوڑ پڑا، اور اسی وجہ سے اس پر بننے والی فلم اور اس کا کردار نبھانے والے عرفان خان آج بھی لوگوں کو یاد ہیں۔
ہدایت کار تگمانشو دھلیا کی فلم میں بھارتی فوج کے اس ایتھلیٹ سپاہی کی کہانی بتائی گئی ہے جس نے قومی سطح پر سونے کا تمغہ جیت کر سب کو حیران کر دیا تھا۔
بعد میں اس نے انٹرنیشنل ایونٹس میں بھی ملک کی نمائندگی کی بعد میں وہی سپاہی ڈاکو کیسے بن گیا اور اس نے اپنی ہی برادری کے لوگوں کا قتل کیوں کیا؟ یہ سب اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔
عرفان خان کی جان دار اداکاری نے نہ صرف ان کے اسٹار اسٹیٹس میں اضافہ کیا بلکہ فلم کو یادگار بھی بنا دیا۔
عرفان خان کو بہترین اداکار کا فلم فیئر (کریٹیک) ایوارڈ تو ملا ہی، سنجے چوہان اور تگمانشو دھلیا کو بہترین اسکرین پلے کی تیاری پر بھی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
بھاگ ملکھا بھاگ (2013)
'بھاگ ملکھا بھاگ' کا شمار بھارت میں کھیلوں سے وابستہ کسی بھی اہم شخصیت کی زندگی پر بننے والی بہترین فلموں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
ہدایت کار راکیش اوم پرکاش مہرا کی فلم میں فرحان اختر نے بھارت کے سب سے بڑے ٹریک اور فیلڈ اسپرنٹر ملکھا سنگھ کا کردار خوب نبھایا۔ نہ صرف اس کردار کو ادا کرنے کے لیے انہوں نے خود کو فٹ رکھا بلکہ ایک ایتھلیٹ والی ٹریننگ بھی کی۔
فلم میں ملکھا سنگھ کی 1940 سے لے کر 1960 تک کی زندگی کو دکھایا گیا ہے جس میں پہلے وہ اپنے گاؤں میں ریس کے مقابلے میں حصہ لیتے ہیں۔ پھر فوج میں شامل ہو کر صرف اس لیے ریس میں حصہ لیتے ہیں کیوں کہ جیتنے والوں کو کھانا اچھا ملتا ہے اور پھر ملک کی خاطر ٹریک پر اس لیے بھاگتے ہیں تاکہ ان کا نام ہو۔
ملکھا سنگھ کی کتاب 'دی ریس آف مائی لائف' سے ماخود اس فلم میں کرکٹر یوراج سنگھ کے والد یوگراج سنگھ نے ملکھا سنگھ کے کوچ رنویر سنگھ کا رول ادا کیا جب کہ پاکستانی اداکارہ میشا شفیع نے ایرانی سوئمر پری زاد، پون ملہوترا نے حوالدار گورودیو سنگھ اور سونم کپور نے ان کی محبوبہ کا رول ادا کیا۔
فلم فیئر ایوارڈز میں 'بھاگ ملکھا بھاگ' نے نہ صرف بہترین فلم، بہترین ہدایت کار (راکیش اوم پراکاش مہرا)، بہترین اداکار (فرحان اختر) اور بہترین شاعر (پرسون جوشی) کے ایوارڈ جیتے۔ بلکہ اسے بہترین پروڈکشن ڈیزائن اور بہترین کوسٹیوم کے ایوارڈ بھی ملے۔
پاکستانی گلوکاروں عارف لوہار اور جاوید بشیر نے فلم میں گلوکاری کی جس میں عارف لوہار کا گایا ہوا ٹائٹل ٹریک آج بھی لوگوں میں مقبول ہے جب کہ جاوید بشیر کا 'میرا یار 'اور 'او رنگریز' کافی ہٹ ہوئے۔
میری کوم (2014)
آج کل ہالی وڈ میں پریانکا چوپڑا کا راج ہے، کبھی وہ 'بے واچ' کی فلم میں نظر آتی ہیں تو کبھی 'کوانٹیکو' جیسی سیریز میں مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
لیکن ہالی وڈ جانے سے پہلے وہ بھارت میں کچھ ایسا کام کر گئی تھیں جس کی وجہ سے ان کو اس قسم کے رول مل رہے ہیں، اور ایسا ہی ایک کردار تھا فلم 'میری کوم 'میں جس میں نہ صرف وہ ایک ایسی اولمپک لیول باکسر بنی تھیں جس نے اپنے کریئر میں اُتار چڑھاؤ دیکھے، بلکہ انٹرنیشنل لیول پر اپنے ملک کا نام بھی روشن کیا اور گولڈ میڈل بھی جیتے۔
یہ فلم بتاتی ہے کہ کیسے ایک کسان کی لڑکی کے دل میں باکسنگ کا شوق پیدا ہوا۔ کیسے وہ باکسنگ رنگ تک پہنچی اور جب اس کے باپ نے اسے باکسنگ سے روکنے کی کوشش کی تو اس نے کیا کیا۔
میری کوم نے شادی کے بعد کم بیک کیوں کیا؟ یہ ایک سوال ان کے مداح ہمیشہ ان سے پوچھتے ہیں اور اس فلم کے ذریعے انہیں اس کا جواب بھی مل جائے گا۔
بھارت کو بین الاقوامی سطح پر کامیابی دلانے کے لیے کیا کیا قربانیاں دینا پڑیں، کیوں اس کا کوچ اس سے ناراض ہوا اور میری کوم نے آخری میچ میں ایسا کیا دیکھا جس کے بعد ناک آؤٹ ہوتے ہوتے وہ واپس آئیں اور چھا گئیں۔
پریانکا چوپڑا کی شاندار اداکاری اورر فلم میکر امنگ کمار کی ہدایت کاری کی بدولت فلم نے نہ صرف باکس آفس پر راج کیا بلکہ اسے فلم فیئر میں بہترین فلم، بہترین اداکارہ کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
نیرجا (2016)
کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جنہیں لاکھ بھلانے کی کوشش کے باوجود بھول کوئی نہیں سکتا، ستمبر 1986 کو کراچی میں پین ایم فلائٹ 73 کی ہائی جیکنگ اور اس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والی بھارتی ایئر ہوسٹس نیرجا بھنوٹ کی موت بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جس پر اگر فلم نہ بنتی تو لوگوں کا تجسس آج بھی قائم رہتا۔
سونم کپور نے رام مدھوانی کی اس فلم میں نیرجا بھنوٹ کا کردار بخوبی ادا کیا، اس فلم کے ذریعے شائقین کو نہ صرف یہ پتا چلا کہ نیرجا بھنوٹ کون تھیں، بلکہ یہ کہ اس کے کیا خواب تھے اور اس نے اس جہاز پر موجود 379 میں سے 359 مسافروں کی جان کیسے بچائی۔
فلم میں جہاں ایکشن سین بہترین انداز میں فلمائے گئے وہیں وہ ڈرامائی سین بھی کسی سے کم نہیں جس میں نیرجا کے گھروالوں اور خاص طور پر والدہ کا کردار ادا کرنے والی شبانہ اعظمی شامل تھیں۔
نیرجا کو بہترین فلم، بہترین ہدایت کار، بہترین اداکارہ (سونم کپور) اور بہترین معاون اداکار (جم ساربھ) کی کیٹیگری میں فلم فیئر والوں نے جگہ تو دی لیکن کامیابی اسے بہترین معاون اداکارہ (شبانہ اعظمی)، بہترین فلم (کریٹیکس) اور بہترین اداکارہ (کریٹیکس) بہترین سنیماٹوگرافی، بہترین ایڈیٹنگ اور بہترین پروڈکشن ڈیزائن کے ایوارڈز کی صورت میں ملی۔
ایم ایس دھونی دی انٹولڈ اسٹوری (2016)
بھارت میں اگر کسی کرکٹر کو سب سے زیادہ مانا جاتا ہے تو وہ ہے سچن ٹنڈولکر، لیکن اس کرکٹ سے دیوانہ وار محبت کرنے والے ملک میں ایک کھلاڑی ایسا بھی ہے جس نے سچن ٹنڈولکر کی موجودگی میں اپنا ایک مقام بنایا، اور وہ ہے مہندرا سنگھ دھونی۔
ایم ایس دھونی سے سارا بھارت محبت کرتا ہے اور اسی لیے نیرج پانڈے نے 'ایم ایس دھونی دی انٹولڈ اسٹوری' بنائی، تاکہ سارے بھارت کو ان کی کہانی پتا چل سکے۔
یہ فلم اس وکٹ کیپر بیٹسمین کی کہانی ہے جسے اس کے کریئر کے آغاز میں کسی نے سنجیدہ نہ لیا اور جو آج بھی کھیل کے علاوہ کسی کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتا۔
اس فلم میں حال ہی میں مبینہ طور پر خود کشی کرنے والے اداکاری سوشانت سنگھ راجپوت نے ایم ایس دھونی کا کردار ایسے نبھایا کہ خود دھونی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔
لیکن فلم کی شوٹنگ سے پہلے سوشانت سنگھ راجپوت اور دھونی میں صرف یہ کنکشن تھا کہ دونوں کا تعلق ایک ہی علاقے سے تھا۔
یہ سابق بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے کا کمال تھا جنہوں نے ایک سوشانت سنگھ راجپوت سے ایک ایم ایس دھونی تراشا اور اس کا اندازہ فلم میں دھونی کے ٹریڈمارک شاٹس دیکھ کر ہوتا ہے۔
اس فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک فٹ بال کا گول کیپر کرکٹ کا وکٹ کیپر بنا۔ کیسے اس نے مڈل آرڈر سے خود کو اوپنگ بیٹسمین بنایا، کس طرح اس نے اپنے والد کو خوش رکھتے ہوئے نوکری کی اور پھر اسی نوکری کی بدولت کرکٹ کھیلی اور بعد میں بھارت کو ورلڈ کپ جتوایا۔
سنجو (2018)
ویسے تو فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں کی زندگی رنگوں سے بھری ہوتی ہے، لیکن بالی وڈ میں ایک ادکار ایسا بھی گزرا ہے جس کی اپنی کہانی کسی فلم سے کم نہیں۔ یہ اداکار کوئی اور نہیں، سنجے دت ہے جسے لوگ پیار سے سنجو بابا بھی کہتے ہیں۔
سن 2018 میں بننے والی فلم 'سنجو' میں اداکار رنبیر کپور نہ صرف سنجے دت بنے بلکہ لگے بھی، سنجے دت کی طرح نہ صرف وہ بولے بلکہ چلے بھی اور جب فلم ریلیز ہوئی تو ہر کوئی ان کی شاندار پرفارمنس کے گن گاتا نظر آیا۔
تبھی تو رنبیر کپور کو بہترین اداکار کا فلم فیئر اور وکی کوشل کو بہترین معاون اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ ملا جب کہ فلم کو مزید پانچ کیٹیگریز میں منتخب کیا گیا لیکن وہ ایوارڈ نہ حاصل کرسکی۔
لیکن 'سنجو' فلم صرف اداکاری ہی میں کمال نہیں تھی بلکہ جس طرح ہدایت کار راج کمار ہرانی نے سنجو کی کہانی کو فلمایا۔ ان کے والد سنیل دت اور والدہ نرگس دت کے لیے پریش راول اور منیشا کوئرالا سے اداکاری کرائی اور رنبیر کپور کو سنجے دت کے روپ میں پیش کیا، وہ کوئی ماہر ہدایت کار ہی کرسکتا ہے۔
سنجے دت کی پہلی فلم 'روکی' سے لے کامیاب ترین فلم 'منا بھائی ایم بی بی ایس' تک، ممبئی حملوں میں ان کے ملوث ہونے سے لے کر جیل سے رہا ہونے تک کی روداد اور سب سے بڑھ کر کیسے انہوں نے منشیات جیسی عادت کو شکست دے کر ایک بار پھر اپنا لوہا منوایا، یہ سب کچھ اور بہت کچھ دکھایا گیا ہے اس فلم میں۔
دنگل (2016)
بالی وڈ اداکار عامر خان کو مسٹر پرفیکٹ ایسے ہی نہیں کہا جاتا بلکہ 'دنگل' جیسی فلم میں انہوں نے ریسلنگ کوچ ماہاویر سنگھ پھوگٹ کا کردار اس خوبی سے ادا کیا کہ فلم فیئر والے انہیں ایوارڈ دیے بغیر نہ رہ سکے۔
چوں کہ عامر خان کو فلم میں ایک ینگ ٹو اولڈ پہلوان کا کردار ادا کرنا تھا، اس لیے انہوں نے پہلے بوڑھے ریسلر اور پھر جوان ریسلر والے سین فلمبند کروائے۔
اس فلم کے وہ پروڈیوسر تو تھے ہی، ان کی اداکاری نے اسے دنیا بھر اور خاص طور میں چین میں اتنا مقبول کیا کہ دوسری کوئی اور فلم اس کے قریب بھی نہ آ سکی۔
اس فلم کی کہانی ایک ایسے پہلوان کے گرد گھومتی ہے جس نے نوکری کی خاطر پہلوانی تو چھوڑ دی، لیکن بعد میں اپنا فن اپنی بیٹیوں میں ایسے منتقل کیا کہ اس میں سے دو نے بھارت کو کامن ویلتھ گیمز اور کامن ویلتھ چیمپئن شپ میں سونے کا تمغہ جتوایا۔ 'دنگل' نے فلم فئیر میں بہترین فلم، بہترین ڈائریکٹر (نتیش تیواری)، بہترین اداکار (عامرخان ) کے ساتھ ساتھ بہترین ایکشن کا ایوارڈ بھی جیتا۔
شکونتلا دیوی (2020)
دنیا بھر میں کرونا وبا کی وجہ سے سنیما بند ہیں، لیکن بھارتی فلم 'شکونتلا دیوی' کی ریلیز نے ثابت کردیا کہ اگر فلم اچھی ہو، تو لوگ کہیں بھی دیکھنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
فلم میں اداکارہ ودیا بالن نے شکونتلا دیوی کا کردار بڑی عمدگی سے بنھایا ہے، ہیومن کمپوٹر کے نام سے جانی جانے والی شکونتلا نے کس طرح خود کو دنیا بھر میں کمپیوٹر سے تیز کیلکولیٹ کرنے والی عورت کی حیثیت سے منوایا اس سب کا احاطہ فلم میں کیا گیا ہے۔
ان کی ازدواجی زندگی اور کس طرح انہوں نے کمپیوٹر کو شکست دی، یہ سب کچھ اس فلم میں دکھایا گیا ہے۔
اس فلم کے ہدایت کار انو میمن ہیں اور اسے 31 جولائی کو ایمیزون پرائم پر ریلیز کیا گیا۔ فلم کی ریلیز اس لیے تاریخی ہے کیوں کہ اس کی ریلیز سے صرف ایک دن پہلے 30 جولائی کو شکونتلا کو 1982 میں بنائے ہوئے ریکارڈ کا بعد از مرگ گنیر بک آف ورلڈ ریکارڈ سرٹیفکیٹ ملا۔
دیگر قابل ذکر بائیوپکس، سردار،نیتا جی سبھاس چندرا بوس، دی فارگوٹن ہیرو، منگل پانڈے، دی رائزنگ، شاہد، اظہر، سورما، سوپر تھرٹی اور چھپاک جیسی فلمیں شامل ہیں۔