رسائی کے لنکس

افغانستان میں پرچم کی تبدیلی پر بحث، کیا عوام طالبان کا جھنڈا قبول کریں گے؟


طالبان نے کابل پر قبضے کے بعد مختلف شہروں میں اپنے پرچم آویزاں کر دیے ہیں۔ البتہ کئی علاقوں میں نوجوان افغانستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔
طالبان نے کابل پر قبضے کے بعد مختلف شہروں میں اپنے پرچم آویزاں کر دیے ہیں۔ البتہ کئی علاقوں میں نوجوان افغانستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔

طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد ملک کی علامت سمجھے جانے والے پرچم پر بحث ہو رہی ہے کہ اب افغانستان کا پرچم کون سا ہو گا۔

طالبان ملک کے مختلف شہروں میں کئی اہم مقامات پر افغانستان کا پرچم اتار کر اپنا سفید پرچم لہرا رہے ہیں۔ جنگجوؤں کے اس اقدام کے بعد جلال آباد اور اسد آباد جیسے شہریوں میں لوگوں کی جانب سے طالبان کے لگائے گئے پرچم اتارنے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر کئی ایسی ویڈیوز وائرل ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری سفید جھنڈے اتار کر واپس افغانستان کے پرچم لہرا رہے ہیں۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان کے پرچم کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی کئی بار افغان پرچم کا رنگ اور ڈیزائن تبدیل ہوتا رہا ہے اور اس کی ایک طویل تاریخ ہے۔

سن 1919 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے اب تک لگ بھگ 19 مرتبہ افغانستان کا قومی پرچم تبدیل ہو چکا ہے۔ بیسویں صدی میں کسی بھی ملک کے پرچم کے مقابلے میں افغانستان کے جھنڈے میں سب سے زیادہ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔

افغانستان کے اس وقت موجودہ جھنڈے میں سیاہ، سرخ اور سبز رنگ ہے اور درمیان میں ایک مسجد پر دو جھنڈے لہرا رہے ہیں اور اس پر کلمہ تحریر ہے۔ عالمی سطح پر اسی جھنڈے کو افغانستان کا جھنڈا تسلیم کیا گیا ہے۔

افغانستان کے جھنڈے کے رنگوں سے متعلق مختلف تصورات پائے جاتے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ سیاہ رنگ انیسویں صدی میں درپیش مشکلات کو ظاہر کرتا ہے جب کہ سرخ رنگ افغانستان کی آزادی کے لیے جان قربان کرنے والوں کے لیے ہے اور سبز رنگ ملک کے خوشحال مستقبل اور امید کا نشان ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان کی پہچان بننے والے پرچم
بیسویں صدی کے اوائل میں افغانستان کی پہچان بننے والے پرچم

بعض افغان شہری جھنڈے میں سیاہ رنگ سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ تاریخ کو ظاہر کرتا ہے جب کہ سرخ رنگ ترقی اور سبز رنگ زراعت یا اسلام کی سربلندی کو ظاہر کرتا ہے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں افغانستان کے جھنڈے میں کئی تبدیلیاں کی گئیں۔

'ہسٹوریکل ڈکشنری آف افغانستان' کے مطابق 1919 میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد افغانستان کے بادشاہ امان اللہ خان نے پہلی مرتبہ 1928 میں تین رنگوں سیاہ، سرخ اور سبز کا جھنڈا متعارف کرایا جس کے درمیان ایک مہر بھی شامل تھی۔ اس مہر میں پہاڑوں کے درمیان سے سورج کی روشنی کو گندم کے خوشوں کے درمیان دکھایا گیا تھا۔ ساتھ ہی لفظ اللہ کو جھنڈے کے اوپری حصے میں بائیں جانب شامل کیا گیا تھا۔

برطانیہ سے آزادی کے بعد افغانستان کا پہلا تین رنگوں والا جھنڈا جسے 1928 میں متعارف کرایا گیا۔
برطانیہ سے آزادی کے بعد افغانستان کا پہلا تین رنگوں والا جھنڈا جسے 1928 میں متعارف کرایا گیا۔

امان اللہ 1929 میں بادشاہت سے دست بردار ہوئے جس کے بعد ان کے کزن نادر شاہ تخت نشین ہوئے تو انہوں نے جھنڈے کو برقرار رکھا لیکن انہوں نے جھنڈے میں پہاڑوں کی جگہ مسجد کو شامل کیا۔

نادر شاہ نے اس جھنڈے میں لفظ افغانستان اور 1929 شامل کیا۔ 1929 کو شامل کرنے کا مقصد یہ وہ سال تھا جب انہوں نے بزور طاقت اقتدار سنبھالا۔

ظاہر شاہ کا متعارف کردہ جھنڈا
ظاہر شاہ کا متعارف کردہ جھنڈا

نادر شاہ کے قتل کے بعد ان کے صاحب زادے ظاہر شاہ تخت نشین ہوئے اور انہوں نے اپنے والد کے پرچم میں ایک تبدیلی کی جس میں پرچم کے درمیان مسجد کے گرد گندم کے خوشوں کو شامل کیا۔ یہ پرچم 1973 تک ملک کا پرچم کہلایا۔

افغانستان کے صدر داؤد خان کا متعارف کردہ قومی پرچم
افغانستان کے صدر داؤد خان کا متعارف کردہ قومی پرچم

1973 میں جھنڈے میں ہونے والی تبدیلی

افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کے کزن داؤد خان نے انہیں اقتدار سے بے دخل کرتے ہوئے ملک سے بادشاہت کا خاتمہ کیا اور جمہوری روایات قائم کیں۔

ہسٹوریکل ڈکشنری اف افغانستان کے مطابق داؤد خان نے مئی 1974 میں جمہوریہ افغانستان کا پرچم ڈیزائن کرایا جس میں سیاہ، سرخ اور سبز رنگ کو برقرار رکھا البتہ انہوں نے جھنڈے پر موجود نادر شاہ کے خاندان کی نمایاں تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے اس میں عقاب، محراب، منبر شامل کیا اور ساتھ اس پر جمہوریہ افغانستان کے علاوہ 1973 کی وہ تاریخ شامل کی جب انہوں نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔

1974 سے 1987

خانہ جنگی کے شکار ملک افغانستان میں 1974 سے 1986 تک افغانستان کے پرچم میں چار مرتبہ تبدیلی کی گئی۔

سن 1974 میں افغانستان کے پرچم میں مسجد کی جگہ عقاب کو شامل کیا گیا۔

1978 میں جھنڈے میں ایک بار پھر تبدیلی

داؤد خان کے قتل کے بعد نور محمد ترکئی افغانستان کے صدر بنے اور انہوں نے ملک کے پرچم کو سرخ رنگ کا کرتے ہوئے اس پر سیل برقرار رکھی لیکن اس میں سے عقاب کو ہٹا کر ایک ستارے کا اضافہ کیا اور ساتھ ہی اس پر'خلق' لکھوا دیا۔

خلقی پرچم تقریباً سویت یونین کے پرچم سے مماثلت رکھتا تھا۔

1992 سے 2002

نوے کی دہائی اور اکیسویں صدی کے اوائل تک افغانستان کے پرچم میں مزید چار مرتبہ تبدیلیاں کی گئیں۔

سوویت یونین کے انخلا کے بعد احمد شاہ مسعود نے کابل کا کنٹرول سنبھالا تو برہان الدین ربانی نئی اسلامی ریاست کے صدر منتخب ہوئے۔ اسی برس انہوں نے ملک کا پرچم مکمل طور پر تبدیل کیا۔

یہ پرچم کئی دیگر اسلامی ملکوں کی پرچم کی طرز پر تھا جس میں سابق بادشاہوں امان اللہ کی متعارف کردہ مسجد اور گندم کے خوشوں کو شامل کیا گیا تھا لیکن ساتھ ہی اس کے گرد دو تلواروں کا اضافہ شامل تھا جس کا مطلب مجاہدین کی کامیابی کی نشانی تھا۔ البتہ اس جھنڈے کے رنگوں میں سفید، سبز اور سیاہ رنگ شامل تھے۔

1996

طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد انہوں نے ملک کو اسلامی امارات کا نام دیا اور ملک کا پرچم تبدیل کرتے ہوئے سفید رنگ کا جھنڈا متعارف کرایا جس میں سیاہ رنگ سے کلمہ واضح طور پر نمایاں تھا۔

2001

امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد طالبان مخالف شمالی اتحاد نے کابل پر قبضہ کیا تو ربانی دور کے جھنڈے کو دوبارہ بحال کیا گیا۔

2002

افغانستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکہ کی حمایت سے بننے والی عبوری حکومت کا قیام عمل میں آیا تو اس وقت کے صدر حامد کرزئی نے ظاہر شاہ کے دور کے جھنڈے کو دوبارہ بحال کیا۔ اسی سال افغانستان کے لویہ جرگہ نے جھنڈے میں سفید رنگ کی سیل کے بجائے سنہری رنگ کی سیل کی منظوری دی۔

2013

اس مرتبہ افغانستان کے پرچم میں معمولی سی تبدیلی لائی گئی۔ جس میں فونٹ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پرچم کے درمیان میں موجود مہر کو سبز رنگ سے بڑھا کر سرخ اور سیاہ رنگ تک وسعت دے دی گئی تھی۔

اب جب طالبان افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں تو مختلف مقامات پر اپنا سفید پرچم لہرا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بعض مقامات پر ان کا پرچم اتار کر افغانستان کا جھنڈا لہرانے کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ جب کہ کچھ علاقوں میں افغانستان کے جھنڈوں کے ساتھ نوجوانوں نے ریلیاں بھی نکالی ہیں۔ تو ایسے میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا افغان عوام طالبان کی جانب سے قومی پرچم کی تبدیلی کو تسلیم کر لیں گے؟

XS
SM
MD
LG