رسائی کے لنکس

امریکہ میں ہپیوں کے شیطان صفت لیڈر چارلس مینسن کا انتقال


چارلس مینسن (فائل)
چارلس مینسن (فائل)

1960 کی دہائی کے دوران معاشرے سے فرار اختیار کرنے والے اور ناکام افراد اُسے اپنا گرو سمجھتے تھے اور پھر اُس نے اپنے انہی چیلوں کو لاس اینجلس کے امیر اور مشہور لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے کیلئے بھیجا۔

امریکہ میں حاملہ اداکارہ شیرون ٹیٹ اور چھ دیگر افراد کو سفاک انداز میں قتل کرنے والے ہپی لیڈر چارلس مینسن کا 83 برس کی عمر میں انتقال ہوگیا ہے۔ چارلس کی آنکھوں میں ایک شیطان صفت چمک تھی جو مبینہ طور پر بہت سے لوگوں کو مسحور کر دیتی تھیں۔

چارلس کا انتقال عمر قید کے دوران قدرتی وجوہات کی بنا پر کیلی فورنیا کے ایک اسپتال میں ہوا۔ اُس کا نام تشدد اور ظلم و ستم کے حوالے سے آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔ اُس کو عمر قید کی سزا دلوانے والے لاس اینجلس کاؤنٹی کے پرازیکیوٹر، ونسینٹ بگلیوسی کا کہنا ہے کہ، ’’مینسن شیطانیت کی علامت تھا۔ وہ انتہائی شاطر اور خراب اخلاقی اقدار کا حامل شخص تھا۔ آج اُس کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والے لوگوں کو یاد کرنے اور اُن کا غم محسوس کرنے کا دن ہے۔‘‘

چارلس بچپن سے ہی جرائم میں ملوث رہا اور بار بار جیل جاتا رہا۔ 1960 کی دہائی کے دوران معاشرے سے فرار اختیار کرنے والے اور ناکام افراد اُسے اپنا گرو سمجھتے تھے اور پھر اُس نے اپنے انہی چیلوں کو لاس اینجلس کے امیر اور مشہور لوگوں کو بے دردی سے قتل کرنے کیلئے بھیجا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس نے وحشیانہ طریقے سے قتل کا یہ منصوبہ موسیقی کے مشہور گروپ ’بیٹلز‘ کے معروف گیت Helter Skelter کی اُلٹی تاویل کے ذریعے بنایا تھا۔

اُس کی طرف سے کئے گئے ہولناک قتل نے بہت سے لوگوں کو خوف میں مبتلا کئے رکھا۔ 1969 میں کیلی فورنیا میں منعقد ہونے والے ’رولنگ اسٹون‘ کے کنسرٹ میں ہونے تشدد نے نشے کے عادی افراد کی طرف سے معاشرے کی اقدار کو متاثر کیا جسے امن و محبت کے دور کے خاتمے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

1970 میں ہونے والی عدالتی کارروائی کے دوران اپنے خلاف ناقابل تردید شہادتوں کے باوجود چارلس نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ بے گناہ ہے اور معاشرہ خود قصوروار ہے۔ چارلس کے کیس کے بارے میں طویل عرصے تک رپورٹنگ کرنے والی صحافی لنڈا ڈیوئش کا کہنا ہے، ’’چارلس نے اپنے پیچھے بدی، نفرت اور قتل کی میراث چھوڑی ہے۔ اُس نے ایسے نوجوانوں کو گمراہ کیا جو نا تجربہ کاری کی وجہ سے اُس کی باتوں میں آ گئے اور پھر اُس نے اُنہیں یقین دلایا کہ اُس کے پاس ہر چیز کا حل موجود ہے۔ اُس نے اُنہیں قاتل بنا دیا۔ ہم نے ایسی صورت حال امریکہ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی۔‘‘

جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس چارلس کے کسی رشتہ دار کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں اور ریاستی قانون کے مطابق اگر کوئی رشتہ دار دس روز تک سامنے نہیں آتا تو جیل حکام خود فیصلہ کریں گے کہ اُسے دفنایا جائے یا اُس کی لاش جلا دی جائے۔

چارلس کے ساتھیوں نے 9 اگست، 1969 کو اداکارہ شیرون ٹیٹ کے گھر پر ساڑھے آٹھ ماہ کی حاملہ اداکارہ، کافی ہیئریس ابی گیل فولجر، مشہور ہیئر ڈریسر جے سیبرنگ، پولش فلموں کے ڈائریکٹر ووئٹک فرائیکوسکی اور سٹیون پیرینٹ، اور اداکارہ کے ایک دوست کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اداکارہ کے شوہر اور فلم ’’روزمیریز بے بی‘‘ کے ڈائریکٹر رومن پولانسکی اُس وقت ملک سے باہر تھے۔

اس سے اگلی رات اُنہوں نے ایک گروسری اسٹور کے امیر مالک لینو اور اُن کی بیگم روزمیری کو چاقوؤں کے وار کرکے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا۔ لوگوں کو ہلاک کر کے اُن کی لاشوں پر جلی حروف میں ’’سور‘‘ کا لفظ لکھ دیا جاتا تھا۔

چارلس کو ان واقعات کے تین ماہ بعد گرفتار کر لیا گیا۔ چارلس شیطانی مسکراہٹ رکھتا تھا اور اُس کے ماتھے پر X کا نشان تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے سواسٹیکا بنا دیا گیا تھا۔

چارلس اور اُس کے تین ساتھیوں پر مقدمہ پورا ایک سال چلتا رہا اور بالآخر تینوں کو سزائے موت سنا دی گئی۔ تاہم کیلی فورنیا کی سپریم کورٹ نے 1972 میں سزائے موت کا قانون ختم کر دیا جس کے بعد اُن کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔

XS
SM
MD
LG