رسائی کے لنکس

عسکری ایوی ایشن ریسکیو آپریشن؛ ’ہیلی کاپٹر کوہ پیما ڈھونڈنے میں تو ناکام رہے، ہزاروں ڈالر کا بل تھما دیا‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • بعض ماہرین پاکستان میں ریسکیو مشن کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کو دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ مہنگی قرار دیتے ہیں۔
  • ایڈونچر ٹورزم سے وابستہ افراد کے مطابق چوٹی سر کرتے ہوئے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی صورت میں عسکری ایوی ایشن کو ریسکیو آپریشن کے لیے اطلاع دی جاتی ہے۔
  • کمپنی کی معلومات، انشورنس کی تصدیق اور ریسکیو عمل میں تمام اخراجات کی ادائیگی کی یقین دہانی کے بعد مشن شروع ہوتا ہے۔
  • ریسکیو مشن میں استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹرز اور پائلٹ دونوں ہی پاکستان کی فوج کے ہوتے ہیں۔
  • ٹور آپریٹرز کے مطابق گلگت بلتستان کا اسٹیٹس ممنوع علاقہ سے ہٹا کر نارمل زون کرنے سے لاگت میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔

نیک نام کریم کوہ پیمائی کے حوالے سے مری میں ایک سیمینار میں شریک تھے کہ انہیں فون اسکرین پر ایک پیغام نظر آیا جو 7027 میٹر بلند چوٹی اسپنتک بیس کیمپ سے آیا تھا۔ یہ پیغام جاپان کے دو کوہ پیماؤں کے لاپتا ہونے کے بارے میں تھا۔

نیک نام کریم ’ایڈونچر ٹورز‘ پاکستان کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پیغام موصول ہونے کے فوری بعد انہوں نے اسکردو کی فلائٹ لی۔ اس کے ساتھ ساتھ عسکری ایوی ایشن کو سرچ اور ریسکیو آپریشن کے بارے میں آگاہ کیا۔

جاپان کے کوہ پیماؤں کے دو گروپ گزشتہ ماہ جون کے آغاز میں پاکستان آئے تھے اور انہوں نے اسپنتک چوٹی کو سر کرنے کے لیے مہم کا آغاز کیا۔ اس چوٹی کو ’گولڈن پیک‘ بھی کہا جاتا ہے۔

دس اور 11 جون کے درمیان دو جاپانی کوہ پیما کیمپ-ٹو سے کیمپ-تھری کی جانب بڑھتے ہوئے لاپتا ہو گئے تھے ان میں سے بعد میں ایک کی لاش مل گئی تھی۔

نیک نام کریم کہتے ہیں کہ 13 جون کی صبح دونوں کوہ پیماؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز ہوا جس میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی جس کے بعد ریسکیو آپریشن میں حصہ لینے والے دونوں ہیلی کاپٹروں نے ایندھن بھرنے کے لیے وقفہ کیا۔

’ہیلی کاپٹر کوہ پیماؤں کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے‘

ان کے بقول اس وقفے کے بعد نیچے ایک گلیشیئر کے پاس رنگ دار کپڑا نظر آیا جس سے ایک جاپانی کوہ پیما کی نشاندہی کی گئی۔ تاہم خراب موسم کے باعث ہیلی کاپٹر زیادہ نیچے نہیں جا سکے۔

نیک نام کریم ایڈونچر ٹورزم سے گزشتہ 25 برس سے منسلک ہیں۔ ان کے مطابق ہیلی کاپٹر جاپانی کوہ پیماؤں کو ڈھونڈنے میں تو ناکام رہے۔ تاہم اگلی صبح انہیں 30 ہزار 30 ڈالر کا بل تھما دیا گیا۔

کوہ پیمائی کے بعض ماہرین پاکستان میں ریسکیو مشن کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کو دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ مہنگی قرار دیتے ہیں۔

کمرشل سطح پر ہیلی کاپٹر سروس عدم دستیاب

پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز کے سیکریٹری محمد عمر اس کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں کمرشل سطح پر ہیلی کاپٹر سروس دستیاب نہیں ہے۔ اسی لیے صرف عسکری ایوی ایشن پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے محمد عمر نے بتایا کہ عسکری ایوی ایشن کے حکام کا یہی مؤقف ہوتا ہے کہ سرچ اور ریسکیو ان کے فرائض میں شامل نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس قسم کے مشن کا حصہ بنتے ہیں۔

محمد عمر کے مطابق چوٹی کو سر کرتے ہوئے کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بعد ٹور آپریٹر خود یا کبھی ان کے ادارے عسکری ایوی ایشن کو ریسکیو آپریشن کے لیے اطلاع دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمپنی کی معلومات، انشورنس کی تصدیق اور ریسکیو عمل میں تمام اخراجات کی ادائیگی کی یقین دہانی کے بعد مشن شروع ہوتا ہے۔

’ہیلی کاپٹرز اور پائلٹ دونوں ہی پاکستان کی فوج کے ہوتے ہیں‘

ان کے مطابق عسکری ایوی ایشن کہنے کو تو ایک نجی ادارہ ہے۔ تاہم یہ فوج اور ٹور کمپنیوں کے مابین ایک رابطے کا کردار ادا کرتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ریسکیو مشن میں استعمال ہونے والے ہیلی کاپٹرز اور پائلٹ دونوں ہی پاکستان کی فوج کے ہوتے ہیں۔

گزشتہ برس کے اعداد و شمار کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد نے کہا کہ گزشتہ سال 12 ایسے ناخوش گوار واقعات میں عسکری ایوی ایشن کی خدمات حاصل کی گئیں۔ سرچ اور ریسکیو کی مد میں ان کو لگ بھگ ساڑھے تین لاکھ ڈالر (تقریباََ ساڑھے نو کروڑ پاکستانی روپے) ادا کیے گیے۔

مہنگا ریسکیو مشن ہونے کی وجہ؟

پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز کے سیکریٹری اس کافی مہنگا ریسکیو مشن قرار دیتے ہیں۔

وہ مشن مہنگا ہونے کی ایک وجہ سرچ اور ریسکیو کے وقت دو ہیلی کاپٹروں کا استعمال سمجھتے ہیں۔

ان کے بقول نیپال میں ایک انجن والا ہیلی کاپٹر اس سے کہیں بلند مقامات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ تاہم پاکستان کی فوج کی ایس او پیز کے مطابق وہ گلگت بلتستان میں ایک ہیلی کاپٹر کے بجائے دو ہیلی کاپٹروں کا استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے لاگت دوگنا ہو جاتی ہے۔

مسابقت نہ ہونے کے سبب چارجز زیادہ

واضح رہے کہ نیپال میں دنیا کی بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سمیت متعدد بلند پہاڑ ہیں۔

سائمن مورو نیپال میں 'ہیلی ایورسٹ لمیٹڈ کمپنی‘ کے مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں انہیں 2010 سے ہمالیہ کے پہاڑوں میں پانچ ہزار گھنٹوں کی فلائنگ کا تجربہ ہے۔

عسکری ایوی ایشن کے مہنگے ریسکیو آپریشن کے بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چونکہ ریسکیو اینڈ سرچ کے لیے کوئی اور ہیلی کاپٹر کمپنی نہیں ہے۔ اس صورت میں مسابقت نہ ہونے کے سبب ہی چارجز بھی زیادہ ہیں۔

ان کے بقول پہاڑی سلسلہ پاکستان کی سرحد پر ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ 'وار زون' کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے عسکری ایوی ایشن کی جانب سے ایک ہیلی کاپٹر اڑانے کی اجازت دینے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ عسکری ایوی ایشن کو پاکستان کی فوج سے ہیلی کاپٹر کرائے پر لینے ہوتے ہیں۔ اس لیے فوج کو ادائیگی کے ساتھ ساتھ چارجز میں عسکری ایوی ایشن کا منافع بھی شامل ہوتا ہے۔ اس لیے ٹوور آپریٹرز یا انشورنس کمپنیوں کو یہ سروس نیپال کی نسبت مہنگی پڑتی ہے۔

گلگت بلتستان میں سیاحت کے لیے اچھا سال

گلگت بلتستان کے محکمۂ سیاحت کے وزیر غلام محمد کہتے ہیں کہ رواں سال سیاحت کے حوالے سے اب تک بہت اچھا رہا ہے۔

ان کے بقول غیر ملکی سیاحوں کی تعداد پہلے کی نسبت اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں غلام محمد کا مزید کہنا تھا کہ خطے میں بلند چوٹیاں سر کرنے کے لیے 840 غیر ملکی کوہ پیماؤں جب کہ ٹریکنگ کے لیے 1280 درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔

’میڈیا پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے‘

عسکری ایوی ایشن کا مؤقف جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے متعدد مرتبہ رابطہ کیا۔

تاہم عسکری ایوی ایشن کے حکام نے کسی قسم کا مؤقف دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے میڈیا پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔

’ثمینہ بیگ کو پاکستان آرمی ایوی ایشن نے ریسکیو کیا‘

پاکستان کی کوہ پیما ثمینہ بیگ کو گزشتہ ہفتے کے ٹو سر کرنے کا مشن اس وقت معطل کرنا پڑا جب ان کی صحت تیزی سے بگڑنا شروع ہوئی۔

اطلاعات کے مطابق ان کے پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو گیا تھا۔

پاکستان کی فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ایک بیان میں بتایا گیا کہ ثمینہ بیگ کو پاکستان آرمی ایوی ایشن نے ریسکیو کیا۔

ع مطابق | مجھے اپنی بیٹیوں کے لیے رول ماڈل بننا تھا، نائلہ کیانی
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

لاگت میں کمی کیسے ممکن؟

پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز کے سیکریٹری محمد عمر کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا اسٹیٹس 'ریسٹریکٹڈ زون' (ممنوع علاقہ) سے ہٹا کر نارمل زون یعنی عمومی علاقہ کر دینے سے لاگت میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔

ان کے بقول اس طرح صرف ایک ہیلی کاپٹر کے استعمال کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔

مسائل پر قابو پانے کی ضرورت

ایڈونچر ٹورز پاکستان کے چیف ایگزیکٹو افسر نیک نام کریم کا کہنا ہے کہ نیپال کی نسبت پاکستان میں کوہ پیماؤں کے بہت کم وفود آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ انشورنس کی مد میں زیادہ لاگت ہے۔

ان کے مطابق ریسکیو مشن در پیش ہونے کی صورت میں دو ہیلی کاپٹروں کے بجائے ایک ہیلی کاپٹر کے استعمال سے انشورنس کی لاگت میں کمی آ سکتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ مسائل پر قابو پا لیا جائے تو مزید کمپنیاں کوہ پیمائی کے لیے وفود پاکستان بھیجنے کو ترجیح دیں گی۔

XS
SM
MD
LG