بھارتی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ ہم جنس شادی کی درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے۔ عدالت میں داخل کردہ 20 درخواستوں میں ایل جی بی ٹی کیو آئی اے پلس شہریوں کو بھی آپس میں شادی کی قانونی اجازت دینے کی اپیل کی گئی ہے۔
پانچ رکنی آئینی بینچ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس ایس کے کول، جسٹس ایس آر بھٹ، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس پی ایس نرسمہا شامل ہیں۔ درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر ایڈووکیٹ مکل روہتگی اور حکومت کی جانب سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ اپنے دلائل پیش کر رہے ہیں۔
درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ انہیں بھی دوسروں کے مانند شادی کرنے، اپنا خاندان بنانے، بچے گود لینے اور باعزت زندگی جینے سمیت وہ تمام سہولتیں ملنی چاہئیں جو شادی کرنے والے مرد اور عورت کو ملتی ہیں۔
مکل روہتگی کے مطابق ’اسپیشل میرج ایکٹ 1954‘ میں شادی کرنے کے لیے مرد اور عورت کا جو ذکر کیا گیا ہے اسے ’اسپاؤس‘ پڑھا جائے۔ ان کے مطابق وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ شادی کا تصور بھی بدلتا رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے کا مختلف مذاہب کے پرسنل لاز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حکومت کی جانب سے ہم جنس شادی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس نے ہم جنس پرستی کو غیر قانونی قرار دینے والی دفعہ کو ختم کرنے کی مخالفت نہیں کی تھی۔
آئین کی دفعہ 377 میں ہم جنس پرستی کو قابل مواخذہ جرم قرار دیا گیا تھا جسے سپریم کورٹ پہلے ہی منسوخ کر چکی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ہم جنس شادی سے سماج میں بدامنی اور تباہی و بربادی پیدا ہوگی۔
اس معاملے پر بھارتی معاشرے میں بحث جاری ہے کہ کیا ہم جنس شادی کی اجازت ملنی چاہیے اور اگر اس کی اجازت دی جاتی ہے تو معاشرے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
اس بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ اس کے کئی پہلو ہیں۔ جیسے کہ قانونی، سماجی، سیاسی اور مذہبی۔
قانونی پہلو
قانونی ماہرین کے مطابق اسپیشل میریج ایکٹ میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان شادی کی اجازت دی گئی ہے۔ جو لوگ اپنے پرسنل لا کے باہر جا کر شادی کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی اس کی اجازت ہے۔ تاہم اس میں صرف مرد اور عورت کے درمیان شادی کی بات کہی گئی ہے۔ ماہرین قانون کے مطابق اس قانون میں ترمیم کر کے ہم جنس شادی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
واضح رہے کہ اس وقت دنیا کے 25 ملکوں میں ہم جنس شادی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے رحمان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ ہم جنس شادی کا معاملہ ہم جنس پرستی کا اگلا قدم ہے۔ پہلے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کیا گیا اور اب ایسا لگتا ہے کہ سپریم کورٹ ہم جنس شادی کی بھی اجازت دے دے گی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اب تک ہم جنسی کے بارے میں عدالت کا رویہ بہت کشادہ دلی والا تھا۔ اس نے ماورائے شادی جنسی تعلق (زناکاری) کو بھی قابل مواخذہ جرم سے الگ کر دیا۔ یعنی اب اڈلٹری کوئی جرم نہیں رہ گئی۔
ان کے مطابق عدالت نے اس معاملے کو آئین کی دفعہ چار میں درج فرد کے بنیادی حقوں سے جوڑ دیا ہے۔ ہم جنس شادی کا تعلق بھی بنیادی حقوق سے ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں سے جو مثالیں قائم کی ہیں ان کی روشنی میں اسے ہم جنس شادی کی اجازت دینی پڑے گی۔
واضح رہے کہ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ وہ اگر آپس میں شادی کرکے اپنا گھر بساتے ہیں تو قانونی طور پر کئی رکاوٹیں ہیں۔ لہٰذا یہ معاملہ ان کے بنیادی حق سے تعلق رکھتا ہے۔
’تو یہ حکومت کی شکست اور سیکولرازم کی جیت ہو گی‘
ماہرین کے درمیان یہ نکتہ بھی زیر بحث ہے کہ کیا بھارت جیسے سیکولر ملک میں جہاں اسٹیٹ کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہے، حکومت کی جانب سے ہم جنس شادی کی مخالفت سیکولرازم کی مخالفت نہیں ہے۔
اس بارے میں اے رحمن ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ بھارت کی ہندو احیا پسند جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) تہذیبی اقدار و روایات کی بنیاد پر ہم جنس پرستی اور ہم جنس شادی کی مخالف ہے۔ اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت میں چلنے والی حکومت بھی اس کی مخالفت کر رہی ہے۔ کیوں کہ بقول ان کے یہ حکومت آر ایس ایس کے نظریات کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سپریم کورٹ ہم جنس شادی کی اجازت دے دیتی ہے تو یہ آر ایس ایس اور حکومت کی شکست اور سیکولرازم کی فتح ہوگی۔
سالیسیٹر جنرل تشار مہتہ نے یہ قانونی نکتہ اٹھایا کہ نئے سماجی رشتوں کی تخلیق کا فیصلہ صرف پارلیمان کر سکتی ہے۔ قانون بنانا پارلیمان کا کام ہے عدالت کا نہیں۔ عدالت کو پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اس معاملے پر سماعت کر سکتی ہے یا نہیں۔
قانون دانوں کے خیال میں ان کی یہ بات درست ہے۔ سپریم کورٹ کا کام قانون سازی نہیں ہے البتہ قانون کی وضاحت کرنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ حکومت کا وضع کرہ کوئی قانون آئین سے متصادم تو نہیں ہے۔
سماجی نظریات
سماجی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہم جنس شادی کی اجازت دی گئی تو معاشرے پر اس کے غلط اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ان کے بقول بھارتی معاشرہ ابھی اتنا آزاد خیال نہیں ہوا ہے کہ وہ ایسی چیزوں کا متحمل ہو سکے۔
سماجی امور کے ماہر ڈاکٹر بال مکند سنہا کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ہم جنس پرستی تو زمانہ قدیم سے موجود ہے اور ہم جنس پرست طبقہ بھی وہ تمام سہولتیں اٹھا رہا ہے جو دوسروں کو میسر ہیں۔ لہٰذا اب ان کا شادی پر اصرار کرنا کہاں تک جائز ہو سکتا ہے۔
ان کے مطابق ہندوؤں کے قدیم مذہبی صحیفے رگ وید میں 1500 قبل مسیح کے مجسموں اور نشانات کے حوالے سے خواتین میں ہم جنس پرستی کا انکشاف کیا گیا ہے۔ قرون وسطیٰ کی تاریخ میں بھی ہم جنسی کے واقعات پائے جاتے ہیں۔ نوابوں کے دور میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں۔
ان کے مطابق اس برائی کو قانونی جامہ پہنانا درست نہیں ہے۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر اسے فرد کا بنیادی حق مانا جائے تب تو اس کی قانونی اجازت دینی پڑے گی۔
سیاسی پہلو
تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے۔ چونکہ بھارتی معاشرے میں عمومی طور پر ہم جنس پرستی کو برا عمل سمجھا جاتا ہے اس لیے سیاست دان بھی اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ہم جنس پرستی ایک غیر فطری عمل ہے اور اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ بی جے پی کے سینئر رہنما سشیل کمار مودی بھی راجیہ سبھا میں اپنی تقریر میں اس کی مخالفت کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر بال مکند سنہا کے مطابق ہندو تہذیبی روایات میں ہم جنس پرستی موجود رہی ہے۔ اس حوالے سے کھجوراہو کے مندر اور دیگر مندروں کا حوالہ دیا جاتا ہے جہاں مجسموں کے توسط سے قدیم ہندو تہذیب و ثقافت کے اظہار میں ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔
ان کے مطابق چونکہ عوام کی اکثریت اس عمل کو ناپسند کرتی ہے اس لیے حکومت یا سیاست داں اس کی حمایت نہیں کر سکتے۔
مذہبی حلقوں کی مخالفت
مبصرین کے نزدیک یہ ایک مذہبی معاملہ بھی ہے۔ کسی بھی مذہب میں ہم جنس پرستی یا ہم جنس شادی کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ ہر مذہب میں شادی کے لیے ایک مرد اور ایک عورت کی بات کہی گئی ہے۔
اے رحمان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ یہ تنازع ہی اس لیے پیدا ہوا کہ پرسنل لاز میں مرد اور عورت کی بات کہی گئی ہے۔ فیملی لاز میں مرد اور عورت کے درمیان شادی کی بات کہی گئی ہے۔ اسلام میں مرد اور عورت کے درمیان نکاح ہوتا ہے۔ عیسائیت میں بھی مرد اور عورت کے درمیان شادی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہندو مذہب میں بھی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کی ایک تنظیم جمعیت علمائے ہند نے ہم جنس شادی کی مخالفت کرتے ہوئے اس معاملے میں خود کو فریق بنائے جانے کی درخواست کی ہے۔ اس کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر سماعت تو کر رہی ہے لیکن کیا بھارتی معاشرہ بھی اسے سننے کے لیے تیار ہے۔
ادھر دوسری طرف کچھ مذہبی جماعتوں نے اس معاملے میں صدر سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ جب کہ جماعت اسلامی ہند، جمعیت علما ہند، کمیونین آف چرچز، اکال تخت، جین گروؤں اور اجمیر درگاہ کی جانب سے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ فطری خاندانی نظام کے منافی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عدالت کو بھی اس کا احساس ہے۔ اسی لیے سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ وہ پرسنل لاز میں نہیں جائیں گے بلکہ اس معاملے کو اسپیشل میریج ایکٹ کے دائرے میں دیکھیں گے۔