میرتقی میر نے کہا تھا کہ
میر غم خواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ آئیں گے کیا
شاعروں کی بات الگ ہے۔ انہیں اپنے زخموں سے گہرا لگاؤ ہوتا ہے لیکن عام انسان یہ چاہتا ہے کہ اس کے زخم جلد مندمل ہوجائیں۔ سائنس دان ایک عرصے سے کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں جس سے زخم کم سے کم وقت میں بھر جائیں تاکہ متاثرہ شخص اپنی زندگی معمول کے مطابق جلد بسر کرنے کے قابل ہوسکے۔
ماہرین کو اپنی تحقیق کے دوران یہ پتہ چلا کہ جوافراد اپنے زخموں کے بارے میں پریشان نہیں ہوتے اور پرسکون رہتے ہیں، ان کے زخم پریشانی میں مبتلاافراد کی نسبت جلد بھرجاتے ہیں۔
اس سلسلے میں کیے جانے والے تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پریشانی اور دباؤ میں مبتلا افرادکی نسبت فکر سے آزاد اور پرسکون رہنے والے افراد نصف وقت میں صحت یاب ہوجاتے ہیں۔
سائنس دانوں نے اپنے اس مفروضے کی تصدیق کے لیے چند صحت مند رضاکاروں کا انتخاب کیا اور ایک سوال نامے کے ذریعے یہ معلوم کیا کہ انہیں اپنی روزمرہ زندگی میں کتنے دباؤ اور پریشانی کا سامنا ہے۔ اس کے بعد انہیں ایک ہی انداز کا ایک چھوٹا زخم لگایا گیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کی کیفیت میں انسان کے اندر ایک خاص ہارمون کورٹی سول(cortisol) پیدا ہوتا ہے، جس کا زخم مندمل ہونے کی رفتار سے گہرا تعلق ہے۔ جسم میں اس ہارمون کی جتنی زیادہ مقدار ہوگی، زخم بھرنے کی رفتار اتنی ہی کم ہوگی۔
اس کی تصدیق ذہنی دباؤ اور زخم مندمل ہونے کے درمیان تعلق پر کیے جانے والی 22 مطالعاتی جائزوں کے اعدادوشمار سے بھی ہوتی ہے۔ کنگز کالج لندن کے پروفیسر جان وائن مین ، جنہوں نے حال ہی میں چلٹن ہام (Cheltenham)سائنس فیسٹول میں اپنی اس تحقیق پر مقالہ پیش کیا تھا، کہتے ہیں کہ مریض کے ذہنی دباؤ اور پریشانی کو نفسیاتی طریقے سے کم کرکے زخم بھرنے کی رفتار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ حادثاتی طورپر لگنے والے زخموں کے علاوہ، جو لوگ سرجری کے عمل سے گذرتے ہیں، اور جنہیں مختلف طبی مسائل کی وجہ سے زخموں کاسامنا ہوتا ہے، ان کے زخم جلد مندمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان ذہنی دباؤ اور تناؤ کی میں کمی لاکر ان کی جلد صحت یابی میں مددکی جائے کیونکہ پریشانی کی کیفیت میں دوائیں زیادہ مؤثر نہیں رہتیں۔