|
ویب ڈیسک— صحت کے حکام کے مطابق امریکہ میں ایم پاکس کی نئی قسم کے کیس کی تصدیق ہوگئی ہے۔ یہ نئی قسم پہلی مرتبہ مشرقی کانگو میں دیکھی گئی تھی۔
ہفتے کو کیلی فورنیا ڈپارٹمنٹ آف پبلک ہیلتھ کے جاری کردہ بیان کے مطابق جس شخص میں ایم پاکس کی نئی قسم کی تشخیص ہوئی ہے اس نے مشرقی افریقہ کا سفر کیا تھا اور واپسی پر شمالی کیلی فورنیا میں زیرِ علاج ہے۔
ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کے مطابق متاثرہ شخص کو گھر پر قرنطینہ کردیا گیا ہے اور صحت کا عملہ ان کے قریب آنے والے افراد سے احتیاطاً رابطہ قائم کر رہے ہیں۔
ایم پاکس ایک کمیاب بیماری ہے جو اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے وائرس کے باعث ہوتی ہے جو چیچک یا اسمال پاکس کی بھی وجہ بنتے ہیں۔
افریقہ میں یہ مرض وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے جہاں یہ انسانوں میں چھوٹے جانوروں یا چوہے کے خاندان سے تعلق رکھنے والے جانوروں کے کاٹنے سے پھیلا ہے۔
اس مرض کی ہلکی علامات میں بخار، سردی لگنا اور بدن میں درد ہونا ہے۔ زیادہ تشویش ناک صورتِ حال میں اس کے باعث چہرے، سینے اور اعضائے تناسل پر دانے یا زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔
رواں سال کے آغاز میں سائنس دانوں نے افریقہ میں ایم پاکس کی نئی قسم سامنے آنے کی رپورٹس دی تھی جو متاثر شخص کے قریب جانے یا جنسی عمل کی وجہ سے پھیل سکتی ہے۔ اس کا زیادہ تر پھیلاؤ مشرقی اور وسطیٰ افریقہ میں ہوا ہے۔
امریکہ کے سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق افریقہ سے باہر جانے والے مسافروں میں ایم پاکس کی تشخیص کی شرح بہت کم ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق رواں برس ستمبر کے آخر سے اب تک ایم پاکس کے 3100 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ کیس تین افریقی ممالک برونڈی، یوگنڈا اور ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں سامنے آئے ہیں۔
اس کے بعد سے سفر کرنے والے افراد میں ایم پاکس کی نئی قسم کے کیسز جرمنی، بھارت، کینیا، سوڈان، تھائی لینڈ، زمبابوے اور برطانیہ میں بھی رپورٹ ہوئے۔
صحت کے حکام کے مطابق رواں ماہ کانگو میں صورتِ حال بظاہر مستحکم ہوگئی ہے۔
افریقہ کے سی ڈی سی کے مطابق کانگو کو مرض کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 30 لاکھ ویکسین درکار تھیں جب کہ باقی افریقہ کے لیے یہ تعداد 70 لاکھ سے زائد ہے۔
اس مرض سب سے زیادہ جنسی تعلق سے پھیلتا ہے اس کے علاوہ متاثرہ شخص کے قریب آنے والے بچوں، حاملہ خواتین اور دیگر صحت سے متعلق مسائل کا شکار دیگر افرد میں بھی منتقل ہوسکتی ہے۔
ایم پاکس کا حالیہ پھیلاؤ 2022 کے عالمی پھیلاؤ سے مختلف ہے جب زیادہ تر کیسز ہم جنس پرست مردوں میں سامنے آئے تھے۔
اس رپورٹ میں زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لی گئی ہیں۔