اسلام آباد —
پاکستان میں غیر معیاری کیڑے مار ادویات کے بکثرت استعمال کی وجہ سے مچھروں کی قوت مدافعت میں اضافے پر ماہرین تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اگر مربوط حکمت عملی نا اپنائی گئی تو دستیاب ادویات میں سے کوئی بھی ڈینگی اور ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے خلاف موثر نہیں رہے گی۔
عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ملیریا کنٹرول پروگرام سے منسلک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر قطب الدین کاکڑ کے مطابق پاکستان بھر میں غیر معیاری کیڑے مار ادویات کی کھلے عام فروخت جاری ہے جب کہ غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی ادویات بھی با آسانی دستیاب ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوامل ان ادویات کے بکثرت استعمال کی بنیادی وجہ بنے ہیں۔
’’حالیہ برسوں میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں اضافے کے بعد غیر معیاری ادویات کی فروخت بڑھ گئی ہے جو کیڑوں کو تلف کرنے کے طریقوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں ... ان کی وجہ سے مچھروں میں بھی ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور یہ آگے چل کر بڑا چیلنج بن جائے گا۔‘‘
قطب الدین کاکڑ نے متنبہ کیا کہ اگر مچھروں کی قوت مدافعت میں اضافہ جاری رہا تو ایسی صورت میں ان کے خاتمے کے لیے دستیاب ادویات میں سے کوئی بھی موثر نہیں رہے گی۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس تشویش ناک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ڈبلیو ایچ او نے عالمی سطح پر منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد کیڑوں میں ادویات کے خلاف مزاحمت میں اضافے سے بچنے کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت صرف میعاری اور تصدیق شدہ ادویات کے مربوط استعمال کو فروغ دیا جائے گا۔
قطب الدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صوبائی حکومتیں بھی اس منصوبے پر عمل درآمد میں معاونت کر رہی ہیں۔
مزید برآں ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا کہ پاکستان خصوصاً وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ملیریا صحت عامہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ملیریا سے متاثرہ افراد کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہے، جو کہ گزشتہ برسوں کی نسبت تقریباً دو گنا ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اگر مربوط حکمت عملی نا اپنائی گئی تو دستیاب ادویات میں سے کوئی بھی ڈینگی اور ملیریا پھیلانے والے مچھروں کے خلاف موثر نہیں رہے گی۔
عالمی ادارہِ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ملیریا کنٹرول پروگرام سے منسلک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر قطب الدین کاکڑ کے مطابق پاکستان بھر میں غیر معیاری کیڑے مار ادویات کی کھلے عام فروخت جاری ہے جب کہ غیر قانونی طور پر درآمد کی گئی ادویات بھی با آسانی دستیاب ہیں۔
اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ عوامل ان ادویات کے بکثرت استعمال کی بنیادی وجہ بنے ہیں۔
’’حالیہ برسوں میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں اضافے کے بعد غیر معیاری ادویات کی فروخت بڑھ گئی ہے جو کیڑوں کو تلف کرنے کے طریقوں پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں ... ان کی وجہ سے مچھروں میں بھی ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے اور یہ آگے چل کر بڑا چیلنج بن جائے گا۔‘‘
قطب الدین کاکڑ نے متنبہ کیا کہ اگر مچھروں کی قوت مدافعت میں اضافہ جاری رہا تو ایسی صورت میں ان کے خاتمے کے لیے دستیاب ادویات میں سے کوئی بھی موثر نہیں رہے گی۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس تشویش ناک صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ڈبلیو ایچ او نے عالمی سطح پر منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کا مقصد کیڑوں میں ادویات کے خلاف مزاحمت میں اضافے سے بچنے کے لیے جامع حکمت عملی کے تحت صرف میعاری اور تصدیق شدہ ادویات کے مربوط استعمال کو فروغ دیا جائے گا۔
قطب الدین کاکڑ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صوبائی حکومتیں بھی اس منصوبے پر عمل درآمد میں معاونت کر رہی ہیں۔
مزید برآں ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا کہ پاکستان خصوصاً وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں ملیریا صحت عامہ کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں ملیریا سے متاثرہ افراد کی تعداد لگ بھگ تین لاکھ ہے، جو کہ گزشتہ برسوں کی نسبت تقریباً دو گنا ہے۔