سپریم کورٹ کےسینئر وکیل اور سول سوسائٹی کے رکن پرشانت بھوشن کے کشمیر پر دیے گئے بیان سے انا ہزارے نے خود کو الگ کر لیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پرشانت کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے، اُن کی ٹیم کی نہیں۔ اُن کےالفاظ میں: پرشانت کا بیان غلط ہے اور ہم اُس کی تائید نہیں کرتے۔
انا ہزارے نے اپنے آبائی وطن رالے گاؤں سدی میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور بھارت کا حصہ رہے گا اور اِسے یقینی بنانے کےلیے ہم کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔بقول اُن کے،’ ہم سر کٹا سکتے ہیں، لیکن کشمیر کو الگ نہیں ہونے دیں گے‘۔
یاد رہے کہ پرشانت بھوشن نے دو ہفتے قبل ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت کو چاہیئے کہ اپنے اقدامات سے کشمیری عوام کو قریب کرے، لیکن اگر وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور آزادی چاہتے ہیں تو استصواب ِ رائے کراکر اُنھیں آزادی دے دینی چاہیئے۔
اُن کے اِس بیان کے ردِ عمل میں تین نوجوانوں نے، جو خود کو دائیں بازو کی تنظیم رام سینا کے کارکن بتاتے ہیں، بدھ کے روز سپریم کورٹ میں اُن کے چیمبرمیں گُھس کر اُن پر حملہ کردیا تھا اور اُن کے ساتھ مارپیٹ کی تھی۔پرشانت بھوشن نے اپنے اِس مؤقف کو دہرایا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔
دریں اثنا، اِن خبروں کے درمیان کی پرشانت کو انا ہزارے کی ٹیم سے الگ کیا جاسکتا ہے، متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔
اناہزارے کے معتمدِ خاص اَروِند کیجری وال نے کہا ہے کہ پرشانت بھوشن کو الگ کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔اُنھوں نے انا ہزارے کے بیان کو پڑھ کر سنایا جِس میں کہا گیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے، اِس کا آئینی حل نکالا جانا چاہیئے۔
اَروِند نے کہا کہ پرشانت بھوشن کونکالے جانے کےبارے میں انا ہزارے کے بیان کو مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے۔