ہوائی۔۔۔ دنیا کے سب سے بڑے سمندر بحرلکاہل کے پانیوں میں گھری ایک ایسی امریکی ریاست ہے جو کئی لحاظ سے انفرادیت کی حامل ہے۔
سمندرکےبیچ سینکڑوں جزیروں پر مشتمل یہ ریاست دنیا کی سب سےدور افتادہ انسانی آبادی ہےجہاں قریب ترین زمینی علاقہ ریاست کیلیفورنیا، تقریبا 4500 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سے جاپان 3850، چین 4900 جب کہ فلپائن کا فاصلہ 5280 کلومیٹر ہے۔
ریاست ہوائی کو الوہا سٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ الوہا ہوائی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب پیار ، محبت ، امن اور ہمدردی ہے۔ جبکہ ہوائی میں لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے بھی یہی لفظ استعمال کرتے ہیں۔
بے پناہ قدرتی حسن سے مالا مال ہوائی کے جزیرے دنیا میں قدرتی ساحلوں، آتش فشاں پہاڑوں اور اپنی مخصوص آب و ہوا کے باعث دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتا ہے۔
ہوائی موجودہ امریکی صدر براک اوما کی جائے پیدائش بھی ہے اور امریکہ میں شامل ہونے والی پچاسویں اور آخری ریاست بھی ، جو 1959 میں امریکی اتحاد میں شامل ہوئی تھی۔
لیکن ان تمام خصوصیات کے علاوہ ایک اور چیز ہے جو ہوائی کو امریکہ کی منفرد ریاست بناتی ہے، اور وہ ہے اس ریاست میں سرکاری سطح پر اسلام کے لیے ایک دن کا مخصوص کیے جانا۔
ہوائی کی ریاستی اسمبلی میں اسلام کے لیے ایک دن مخصوص کرنے کی قرارداد 2009 میں پیش کی گئی تھی، جسے مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد اکثریتی ووٹوں سے منظور کرلیاگیا۔یہ قرارداد جسے ریزولوشن 100 یا اسلام ڈے کا نام دیا گیا تھا، اسمبلی کی رکن فے ہانو ہانو نے پیش کی تھی۔
فے ہانو ہانو ہوائی میں ایک عیسائی گھرانے مین پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ہمارے جزیرے اواہو میں ایک مسلمان کمیونٹی کے رکن میری ایک ساتھی کےپاس آئے اور انھوں نے کہا کہ وہ اسلام کے لیے ایک دن منانا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں نے کچھ تحقیق کی ، اسکا مسودہ تیار کیا اور اسے اسمبلی میں پیش کر دیا۔
ہوائی میں اسلام کے علاوہ بودھ مذہب اور امن کے نام پر بھی ایک دن ریاستی سطح پر منایا جاتا ہے ۔ فے ہانو ہانو کا کہنا ہےکہ ریاست ہوائی میں ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لیے دروازے کھلے ہیں۔
ہوائی کی مسلم کمیونٹی کے رکن حکیم اونصافی ، جو اس قرارداد کے روح رواں بھی ہیں، ریاست ہوائی کی واحد مسجد کے امام ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری تحقیق کے مطابق یہاں مسلمان 19ویں صدی کےآخر میں فلسطین سے آئے تھے۔ اس وقت ہوائی کی اس خوبصورت ریاست میں4 ہزار کے قریب مسلمان بستے ہیں۔
ریاست ہوائی کے تمام جزیروں کی آبادی تقریبا 12 لاکھ ہے۔ امام حکیم کہتے ہیں کہ یہاں مسلم ایسویشن کا آغاز یونیورسٹی آف ہوائی کے طالب علموں نے کیا تھا جو بعد میں عام لوگوں کے لیے بھی ایک پلیٹ فارم کی شکل اختیار کر گیا۔ اور گزشتہ کچھ برسوں میں ہونے والے واقعات نے انھیں اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ لوگوں کو اسلام کا وہ مثبت چہرہ دکھائیں جو انہیں میڈیامیں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس قرارداد کا مسودہ ہوائی کی رکن اسمبلی لائلہ برگ نے تیار کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس قرارداد کا آغاز ایسے ہوا کہ ہوائی کو ایک ایسی ریاست کے طور پر پیش کیا جائے جو ہر کسی کو خوش آمدید کہتی ہے۔ اور یہ ایک کوشش تھی آرٹ اور سائنس میں مسلمانوں کی خدمات کے اعتراف کی ۔
کے جزیروں میں، اس کے گہرے پانیوں اور اونچے پہاڑوں میں اور ان میں بسنےوالے ان لوگوں کے لہجوں اور باتوں میں امن وآشتی ایک ایسی امنگ دیکھنے کو ملی جس کی ضرورت آج ہم سب کو ہے۔ دنیا سے الگ تھلگ اس ریاست کی ہواوں میں یہ احساس نظر آیا کہ آنے والے وقت میں یہ دنیا ایک ایسی جگہ بن جائے گی جہاں کوئی اکثریت اور اقلیت باقی نہیں رہے گی ، اور اس وقت امن کی خواہش پایہ تکمیل کو صرف اس وقت پہنچے گی جب ہم ایک دوسرے کی اور ایک دوسرے کے عقیدے کی عزت و احترام کرنا سیکھیں اور اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کریں۔